محبتوں کا دریا سموئے ہوئے جدا ہورہے ہیں گلشن علم وفن سے
ملاقات کے دن ختم ہوئے جدائی کے دن قریب ہوئے آج وہ لمحہ آچکا ہے ہے جس میں خوشی کا پہلو کم اور غمی کا پہلو زیادہ ہے جامعہ کے تئیں دل میں محبت کے جو جذبات موجزن ہیں ان کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں اور نہ میرے پاس وہ پیرایہ بیان ہے جس کے ذریعہ میں اپنے غم جدائی کی تفصیل کرسکوں اور مجھ جیسے ناتواں کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جملوں اور الفاظ کے ذریعہ ان جذبہائے محبت کی ترجمانی کرسکے جو دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں کیونکہ اب اس دیار محبوب کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا ہے جس کی گود میں ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کے بیشتر ایام گزارے ہیں اور مشکل ترین وصبر آزما حالات میں بہی ہم نے اسے اپنا جائے پناہ بنایا ہےاے سنابل تیری فضا کتنی راحت بخش تھی جس سے اب ہم اشک چھلکاتے وداع ہو رہے ہیں یقیناً اس وقت کو ہم کیسے بھلا سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین سنابل میں قدم رکھا تہا اور اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو دل میں بسائے ہوئے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا اور یہاں کے چشم صافی سے جام کشید کرنے کے لئے پختہ عزائم لے کر آئے تہے اور جب یہاں کے علمی ماحول اور تربیتی فضا کو اپنے تصورات سے بڑھ کر پایا تو خوشیوں میں بے پناہ اضافہ ہواچنانچہ ہم نے اس جامعہ کی عطر بیز فضاؤں اور مشک بار ہواؤں سے اپنے مشام جاں کو معطر کیا چمنستان کتاب وسنت کی نہروں سے اپنے آپ کو سیراب کیا آج یہ ایسا وقت ہے کہ اسے الوداع کہتے ہوئے زبان بند ہوجاتی ہے قلم خشک ہوجاتا ہے دلوں سے آہ نکلتی ہے اور جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ہم اسے الوداع کہیں تو کیسے کہیں ؟؟؟؟
اے علم وہنر اور علم وادب کا خزینہ گوہر!!!
تیری شفقت کے آگے ساری دنیا کی آسائشیں اور لذتیں ہیچ ہیں ہم تیرے لئے یہی دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیشہ سلامت رہے اغیار کی ریشہ دوانیوں اور دشمنان اسلام کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے اور اللہ تعالی تیرے ذمہ داران اور اساتذہ وطلبہ کو گوشہ عافیت میں رکھے اور تیرے فارغ التحصیل بیٹوں سے دین کی نشرواشاعت کا کام لیتا رہے اور دنیا میں تیرا نام روشن کرتا رہے
اے سنابل کے جیالو !
آپ کی محبتوں کو سلام ہو مستقبل میں تمہاری یاد کے نور سے میرے دل کے نہاں خانے روشن ہوں گے تمہارے تصور کی خوشبو ہر لمحہ میرے ساتھ ہوگی اور دنیا کی کوئی چیز میرے اور تمہارے خیال اور ان مبارک دنوں اور خوبصورت لمحوں کے تصور کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی جو ہم نے وقت کے خزانے سے چرا کر اس جامعہ کی چہار دیواری میں ایک ساتھ گزارے ہیں رات کے ایک بج رہے ہیں ہر طرف سناٹا ہے قلم کی سرسراہٹ میں تیزی آرہی ہے لیکن لکھتے ہوئے کثرت محبت اور شدت غم کی وجہ سے قلم ہاتھوں میں لرز رہا ہے شوق ملاقات کی تپش اور محبت کی سوزش میں دل پگھل رہا ہے جس کی تریاقی کے لئے یہ تحریر لکھ رہا ہوں تاکہ اس طرح محبت کی حرارت اور جدائی کی تڑپ میں کچھ کمی ہو اور دل حزیں کے لئے کچھ سامان راحت وسکوں مہیا ہو لیکن افسوس ع
" سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی"
اے متلاشیان علم وفن
مدارس کی اہمیت کو سمجھو اسے کبھی فراموش نہ کرو اپنے وقار کو باقی رکھو شہرت کی حرص سے ہمیشہ بچتے رہو تواضع وانکساری کو ملحوظ خاطر رکہو جان لو کہ دور رس اور باصلاحیت اہل علم ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں شہرت پسندی سے دور ہوتے ہیں،خاموشی کو پسند کرتے ہیں درخت جس قدر ثمرآور ہوگا اسی قدر وہ جھکا ہوگا اور جس قدر وہ پھلوں سے خالی ہوگا اسی قدر اس میں لہراؤ ہوگا یہی مثال اہل علم کی ہےدور رس باصلاحیت اہل علم ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں شہرت پسندی سے دور اور خاموشی کو پسند کرتے ہیں کسی مسئلے میں کوئی بات کہنے سے پہلے اس کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کے علم میں گہرائی اور گیرائی نہیں وہ معمولی مسائل میں بہی اچھلنے کودنے لگتے ہیں بڑی بڑی ڈینگیں مارنے لگتے ہیں مسائل کی تہہ تک پہونچنے سے پہلے ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں ، لفاظی اور چرب زبانی کا خوب استعمال کرتے ہیں ، اپنے آپ کو سب سے بلند خیال کرتے ہیں یاد رکھو! جب انسان کے اندر انانیت کی بو سرایت کرجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ذی علم سمجھنے لگتا ہے تو یہ اس کی تنزلی کا پہلا زینہ ہوتا ہے
؏بقول شاعر
شہرت کی فضاؤں میں اتنا نہ اڑو ساغر
پرواز نہ کٹ جائے ان اونچی اڑانوں میں
اے چمنستان علم وفن کے گوہرو!
علم کا بنیادی مقصد عمل ہے اس لئے عمل کو علم کی حفاظت کا سبب بنائیں مطالعہ میں وسعت پیداکریں کتابوں کی ایک فہرست کی ضرورت ہے تاکہ ایک ترتیب سے اس کا مطالعہ کرسکیں سیرت نبوی سیرت خلفاء راشدین اور اس کے بعد بالترتیب اموی ،عباسی اور عثمانی دور حکومت تک کا ایک سرسری مطالعہ ازحد ضروری ہے اس کے بعد اہل حدیث کی تاریخ کا مطالعہ کریں سلفی عقیدہ کے خلاف جو مواد جہاں ہے اس سے واقفیت بہت ضروری ہے رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ کے بقول اسحاق بھٹی کی ساری کتابیں پڑھ سکیں تو پڑھیں گزشتہ پچاس سالوں میں جو دینی لٹریچر تیار ہوا ہے وہ لازمی طور پر زیر مطالعہ ہو یہی مطالعہ آپ کو بتلائے گا کہ موجودہ دنیا میں اصل کھیل کیا ہے اپنے ملک کی تہذیب وثقافت کی تفہیم ایک اہم ترجیح ہے انگریزی زبان میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کریں علمی دنیا میں جذباتیت اور غیض وغضب سے بھرا ہوا لمحہ قطعی قابل قبول نہیں ہے سامنے والا خواہ کتنی ہی سخت بات کررہا ہو اس کا جواب سنجیدگی ومتانت سے دینے کی عادت ڈالیں فتوے کی بات کہہ کر محض جھوٹا کہہ کر کام نہیں بنے گا بلکہ معقول دلائل ہوں منطقی ومعروضی طرز استدلال ہو کہ مخالف کو بولنے کا موقع نہ مل سکے اور اس سے بھاگنے یا بچ نکلنے کے سارے راستے آپ بند کردیں دور حاضر کا علم کلام یہی ہے تقلید وشرک کے قائلین کے دلائل اور ان کی اصل غلط فہمیوں پر نگاہ ہوفرقوں اور مسلکوں کے خلاف جب کوئی تحریر کریں تو شخصیات سے دور رہ کر دلائل کو ذکر کریں افکار ونظریات کو ٹارگیٹ کیا جائے ساتھ ہی اسلوب مکمل داعیانہ ہو داروغہ بن کر جو تحریر لکہی جائے اس میں اعتدال وتوازن برقرار نہیں رہے گا اور جو تحریر غیض وغضب کے زیر اثر ہوگی اس میں انصاف کے تقاضوں کی رعایت نہیں ہوگی تحریر میں زبان و اسلوب کی تمام خوبیاں موجود ہوں عالمانہ تحریر میں متانت ہوتی ہے مخالف کے اکابرین کو نشانہ تنقید نہ بنایا جائے بھاری بھرکم الفاظ تحریر کے اثرات کو ضائع کردیتے ہیں مشکل الفاظ سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے.
اپنے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے کوئی خیر خواہ رہنما تلاش کریں جس کی رہنمائی میں پوری جد وجہد تحمل وبرداشت اورصبر واستقامت کے ساتھ جی جہاں سے لگ جائیں اور حق تعالی سے توفیق طلب کرتے رہیں اللہ ہمیں اور آپ کو کامیاب کرے اس جامعہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اساتذہ کرام وذمہ داران عظام کو جزائے خیر دے ان کی محنتوں کا دنیا وآخرت میں بہترین صلہ عطا کرے آمین.
تبصرے