الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد!
علم کے سنگلاخ راستے پر چلنے والے ہر مسافر کے لیے یہ الفاظ نہایت اہم اور رہنمائی فراہم کرنے والے ہیں ،میں اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کو یہی وصیت کرتا ہوں کہ علم کے اس سفر میں ان دس بنیادوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔
پہلا:اللہ سے مدد طلب کرنا
انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ کی مدد کے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس لئے جب وہ اپنا معاملہ اپنے نفس کے سپرد کردیتا ہے تو ہلاک وبرباد ہوجاتا ہے اور جب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے اور علم کی طلب میں اسی ذات سے مدد کا خوگر ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کی مدد کرتا ہے.
اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس میں اسی بات پر لوگوں کو ابھارا ہے. فرمایا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين .
(سورۃ الفاتحة :٥)
"ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں".
اور فرمایا : وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ
"اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا".
یعنی اللہ اس کا کفیل ہوجائے گا،
اور فرمایا:وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡن
(سورة المائدة :٢٣)
" اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا
(سنن ترمذي :2344وصححه الالباني)
”اگر تم لوگ اللہ پر توکل ( بھروسہ ) کرو جیسا کہ اس پر توکل ( بھروسہ ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں".
اور سب سے عظیم رزق علم ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام معاملات میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے اور اسی سے مدد طلب کرتے منزل سے باہر نکلنے کی دعا جو آپ سے صحیح سند سے ثابت ہے اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے آپ فرماتے ہیں" بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله ".
دوسرا:اچھی نیت
انسان کو چاہئے کہ علم کی طلب میں اپنی نیت خالص رکھے اللہ کے لئے مخلص ہو دکھاوا اور شہرت کا ارادہ نہ کرے اور جو شخص اللہ کے لئے اپنی نیت خالص رکھے گا اللہ تعالی اسے توفیق سے نوازے گا اور اس پر اسے ثواب عطا کرے گا کیونکہ علم عبادت ہے بلکہ عبادت سے بہی زیادہ عظیم ہے بندے کو کسی عمل پر ثواب نہیں دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ عمل اللہ کے لئے خالص اور متابعت رسول کے موافق نہ ہو اللہ تعالی فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ
(سورة النحل:۱۲٨)
"یقین مانو کہ اللہ تعالٰی متقیوں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے".
اور سب سے عظیم تقوی اللہ کے لئے نیت کو خالص کرنا ہے۔
اور جو شخص شہرت کے لئے علم حاصل کرے گا وہ آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا جیسا کہ حدیث میں ان تین بد نصیبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر آتش دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جو اپنے آپ کو عالم کہلائے جانے کے لئے علم حاصل کیا ہوگا اس سے کہا جائے گا کہ تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق دنیا میں عالم کہا جا چکا یہاں تمہارا کوئی حصہ نہیں اب آتش جہنم کا مزا چکھو .
تیسرا :اللہ سے رو رو کر دعائیں کرنا اور اس سے توفیق اور درستی مانگنا
اللہ رب العالمین سے دعا کرنا علم میں اضافے کا سبب ہے کیونکہ بندہ فقیر ہے اور اپنے رب کا سخت محتاج ہے اللہ جل شانہ نے اپنے بندے کو سوال کرنے اور روروکر ،گڑگڑاکر، آہ وزاری کرنے اور دعائیں کرنے پر ابھارا ہے فرمایا :
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ۔
(سورة الغافر :٦٠)
"اور تمہارے رب کا فرمان(سرزد ہو چکا )ہےکہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اور اللہ نے اپنے نبی کو علم میں زیادتی کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا :
وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا.
(سورة طه :١١٤)
"ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا".
اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے فرمایا:
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ
(سورة الشعراء :٨٣)
"اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے".
یہاں"حکم"سے مراد علم ہے.
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا اجتهد الحاكم... ،(الحديث).
" جب عالم اجتہاد کرے...،"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے لئے قوت حافظہ کی دعا فرمائی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لئے علم کی دعا فرمائی،فرمایا:
اللَّهمَّ فقِّهْهُ في الدِّينِ وعلِّمْه التأويلَ.
"اے اللہ تو ابن عباس کو دین میں فقاہت نصیب فرما اور انہیں قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما".
پس اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حافظے کا عالم یہ ہوگیا کہ وہ جو کچھ سنتے یاد کرلیتے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الأمة اور ترجمان القرآن ہوگئے.
بعد میں اسی روش پر چلتے ہوئے اہل علم برابر اللہ سے گریہ وزاری کرتے رہے اور اللہ سے سوال کرتے رہے،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مساجد کی طرف جاتے سجدہ کرتے اور اللہ رب العالمین سے دعا مانگتے ہوئے کہتے:
" يا معلم إبراهيم علمني ويا مفهم سليمان فهمني.
"کہ اے ابراہیم کو سکھلانے والے مجھے سکھلا دے اے سلیمان کو فہم عطا کرنے والے مجھے فہم عطا کر".
تو اللہ رب العالمین نے ان کی دعا قبول فرمائی یہاں تک کہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ آپ کے تعلق سے فرماتے ہیں:
قد جمع الله له العلم حتى كأنه يأخذ ما يشاء ويترك ما يشاء .
"کہ اللہ نے ان کے لئے علم کو جمع کردیا تہا یہاں کہ ایسا محسوس ہوتا کہ سارا علم ان کے سامنے ہو جسے چاہیں لے لیں جسے چاہیں ترک کردیں".
چوتھا :دل کی درستی
دل علم کا برتن ہے اگر برتن درست ہے تو جو چیزیں اس میں رکہی جائیں گی محفوظ ہوں گی اور اگر برتن درست نہیں ہے تو جو اس میں رکہی جائیں گی ضائع وبرباد ہوجائیں گی،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کو ہر چیز کی بنیاد اور اساس قرار دیا ہے فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ۔
(صحيح البخاري :52).
"سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا تو سارا بدن درست ہو گا اور جہاں وہ بگڑا سارا بدن بگڑ جائے گا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے".
اور دل کی درستی درج ذیل چیزوں سے حاصل ہوتی ہے.
- اللہ تعالی کی معرفت
- اس کے اسماء وصفات اور افعال کی معرفت اس کی مخلوقات اور نشانیوں میں غور وفکر کرنا
- قرآن میں تدبر کرنا
- کثرت سے سجدہ کرنا
- تہجد کا اہتمام کرنا
اور دل کے امراض کی دو قسمیں ہیں
(١)شہوات (۲)شبہات
- شہوات ؛جیسے دنیا اور اس کی خواہشات سے محبت کرنا اس میں مشغول رہنا حرام صورتوں سے محبت کرنا حرام گانے بانسری اور سنگیت سننا اسی طرح حرام چیزوں کا نظارہ کرنا.
- شبہات ؛جیسے فاسد اعتقادات بدعی افعال اور ایسے بدعتی مکتب فکر کی طرف نسبت کرنا جو سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہو
اور دلوں کے وہ امراض جو حصول علم میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں وہ درج ذیل ہیں.
- حسد کرنا
- دھوکا دینا
- تکبر کرنا
اور وہ عادات جو دلوں میں فساد پیدا کرتی ہیں وہ وہ درج ذیل ہیں.
- زیادہ کھانا
- زیادہ سونا
- فضول کلام کرنا
پس ان امراض ومفسدات سے بچنا دل کی درستی کا باعث ہے.
پانچواں:ذہانت
ذہانت کچھ فطری اور کچھ کسبی ہوتی ہیں پس اگر انسان فطری طور پر ذہین ہے تو کسبی ذہانت کے ذریعہ اس کو مزید قوی بنائے اور اگر فطری طور پر ذہین نہیں ہے تو نفس کو اس کا عادی بنائے یہاں تک کہ اسے حاصل کرلے.
اور ذہانت ان قوی اسباب میں سے ایک ہے جو طلب علم وفہم اور حفظ میں معاون ہوتی ہے.
چھٹا:علم کی حرص
طلب علم کے لئے حرص پیدا کرنا علم کی حصولیابی اور اللہ جل شانہ کی مدد کا باعث ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ
(سورة النحل: ۱۲٨)
"یقین مانو کہ اللہ تعالٰی پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے"۔
انسان جب کسی شیئ کی اہمیت کا اندازہ کرلیتا ہے تو اس کے دل میں اس شیئ کو حاصل کرنے کی تڑپ اور حرص پیدا ہوجاتی ہے اور انسان دنیا میں جتنی اشیاء کو حاصل کرنے کی تڑپ شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے میں سخت محنت اور جد وجہد کرتا ہے ان میں سب سے عظیم شیئ علم ہے اس لئے انسان پر واجب ہے کہ علم کو حفظ کرنے اس کوسمجھنے اور اہل علم کی مجالس میں زیادہ سے زیادہ بیٹھنے کی حرص پیدا کرے وقت کی حفاظت کا حریص اور وقت ضائع کرنے میں بخیل بنے.
ساتواں :حصول علم کے لئے سخت محنت کرنا اور اس پر مداومت برتنا
طالب علم سستی اور عاجزی سے دوری اختیار کرے نفس اور شیطان کی پیروی سے بچنے کے لئے پوری طاقت صرف کردے کیونکہ نفس اور شیطان طلب علم سے روک دیتے ہیں .
حصول علم کے لئے محنت اور جدوجہد کرنے کے چند اسباب درج ذیل ہیں.
- علماء کی سوانح عمری کا مطالعہ کرے.
- حصول علم میں ان کے علمی اسفار کامطالعہ کرے.
- علمی اسفار میں پیش آنے والے مصائب ومشکلات کے دوران ان کے صبروتحمل اور قوت برداشت کا مطالعہ کرے.
آٹھواں : بلغہ (اعلیٰ ترین سطح تک پہنچنا)
علم کے میدان میں بلغہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے علم کو اس کی اعلیٰ ترین سطح تک پہنچائے یعنی وہ اپنے موضوع میں اتنا ماہر ہو جائے کہ اس میں نئے نظریات پیش کر سکے اور دوسروں کو سکھا سکے۔
لہذا طالب علم ،علم کی طلب میں اپنی پوری کوشش اور انتھک محنت صرف کر ڈالے یہاں تک کہ وہ اپنی مراد تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کرلے۔
نوواں :عالم دین کی صحبت
علم ،علماء کی زبان سے حاصل کی جاتی ہے طالب علم ، علم کے حصول میں صحیح جوہر پر اعتماد کرے علماء کی مجالست اختیار کرے انہیں سے علم حاصل کرے اس کا طلب، صحیح قواعد کی روشنی میں ہو قرآن وسنت کے نصوص کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرے اس میں غلطی نہ کرے اس کے صحیح اور درست مراد کو سمجھے، عالم دین سے ادب و اخلاق اور ورع حاصل کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنا شیخ کتاب کو نہ بنائے کیونکہ جب کتابوں کو اپنا شیخ بنالے گا تو صحیح چیزیں کم اور غلطیاں زیادہ سمیٹ لے گا امت میں جو بہی شخص علم سے متصف ہوا وہ کسی عالم ہی کے ہاتھ سے تربیت پانے والا اور علم حاصل کرنے والا رہا ہے یہی سلسلہ ہمارے زمانے تک چلتا آرہا ہے ۔
دسواں :لمبی مدت
طالب علم کبھی نہ سوچے کہ وہ ایک دن، دو دن یا سال، دوسال میں تعلیم مکمل کرلےگا بل کہ اسے سالوں سال تک صبر کرنے کی ضرورت ہے.
قاضی عیاض رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ طالب علم کب تک علم حاصل کرے؟
تو آپ نے فرمایا :یہاں تک کہ وہ وفات پاجائے اور اس کے دوات کی روشنائی قبر پر انڈیل دی جائے.
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ میں کتاب الحیض کے درس میں نو سال تک بیٹھتا رہا یہاں تک کہ اسے سمجھ لیا.
اور ذہین طلبہ علماء کی مجلسوں میں دس دس، بیس بیس سال برابر بیٹھتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو مجلس میں بیٹھتے بیٹھتے وفات پاجاتے ہیں.
یہ چند قیمتی باتیں ہیں جو ہر طالب علم کو معلوم ہونی چاہئیں۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں مفید علم اور نیک اعمال کی توفیق دے۔ آمین۔
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم واقتفى أثرهم بإحسان إلى يوم الدين.
نوٹ
(یہ ابو بكر الجزائري کی کتاب "الركائز العشر للتحصيل العلمي" کا اردو ترجمہ ہے)
تبصرے