نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بدن کے بال اور اسلامی تعلیمات

 

بدن کے بالوں کی تین قسمیں ہیں

1-وہ بال جنہیں شریعت نے کاٹنے یا حلق کرنے کا حکم دیا ہے
جیسے مونچھ ،بغل اور زیر ناف کے بال تینوں کی تفصیل درج ذیل ہے

مونچھ کے بال

مونچھ کی تعریف اور اس کے حدود کو جاننے سے پہلے ایک قاعدے کو سمجھ لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا "وہ تمام الفاظ جن کی حد بندی شریعت میں موجود ہے ان کی حدبندی شریعت ہی سے کی جائے گی اور اگر اس کی تحدید وتعیین شریعت میں موجود نہیں ہے تو لغت میں غور کیا جائے گا اگر اس میں بھی نہیں ہے تو اس کی تحدید عرف سے کی جائے گی"۔
لہذا شریعت میں مونچھ کی حدبندی موجود نہیں ہے اس لئے مونچھ کی تحدید کے لئے ہم لغت کی طرف رجوع کریں گے قاعدہ ہے"كل حكم لم يرد في الشرع ولا اللغة تحديده حد بالعرف " ہر وہ حکم جس کی حدبندی شریعت اور لغت میں موجود نہ ہو اس کی تعیین عرف سے کی جائے گی یعنی سب سے پہلے شریعت پھر لغت 
پھر عرف اس ترتیب پر عمل کیا جائے گا۔

مونچھ کی حد بندی

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَأَمَّا الشَّارِب فَهُوَ الشَّعْر النَّابِت عَلَى الشَّفَة الْعُلْيَا
(فتح الباري:10/346)
جہاں تک مونچھ کا تعلق ہے، یہ وہ بال ہیں جو اوپری ہونٹ پر اگتے ہیں ،
یعنی اوپر والے ہونٹ کے دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے جسے مونچھ کہا جاتا ہے مونچھ کو کاٹنا سنن فطرہ میں داخل ہے لہذا اس کی صفائی ستھرائی کرتے رہنا چاہیے مونچھ کاٹنے کے دلائل ہم داڑھی کے ضمن میں ذکر کریں گے۔
عموماً احادیث میں داڑھی اور مونچھ کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے اور دونوں کا حکم ایک دوسرے سے بلکل مختلف ہے ،مونچھ کے تعلق سے جتنی حدیثیں آئی ہیں ان تمام حدیثوں کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مونچھ کو حتی الامکان کترنا اور کاٹنا چاہیے تاہم اسے چھیلنا نہیں چاہیے جبکہ داڑھی سے متعلق جتنی حدیثیں آئی ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسے اپنی حالت پر برقرار رکھنا چاہیے اور کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ تراش خراش نہیں کرنا چاہیے۔

بغل کے بال

بغل کے بال معروف ہیں ان کی حد بندی کی ضرورت نہیں ہیں یہ بال بھی سنن فطرہ میں سے ہیں جن کا اکھاڑنا یا چھیلنا سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَنَتْفُ الْإِبْطِ(صحیح بخاری:5889)بغل کے بال نوچنا پیدائشی سنتوں میں سے یے
لہذا جو شخص اکھاڑنے پر قادر ہو وہ اکھاڑے ورنہ اس کی صفائی کے لئے جو میسر ہو اس کا استعمال کرے کیونکہ مقصود بالوں کی صفائی کرنا ہے وہ جس چیز سے بھی حاصل ہو درست ہوگا ۔

زیر ناف بال کی حد بندی

امام نووى رحمہ اللہ فرماتے ہیں :المراد بالعانة :الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حوالي فرج المرأة
(شرح النووي علی مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة (3/148)

کہ زيرناف بالوں سے مراد وہ بال ہيں جو عضو تناسل کے اوپر اور اس كے ارد گرد پائے جاتے ہیں ہيں، اور اسى طرح عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد بال زيرناف بال كہلاتے ہيں۔
زیر ناف بال کو حلق کرنا چاہیے یعنی جڑ سے صاف کردینا چاہیے جوں ہی یہ بال بڑے ہوں انہیں صاف کرلیں اور اگر اتنی جلد صاف نہ کرسکیں تو کم از کم چالیس دن سے پہلے ہی اس کی صفائی کرلیں اور زیر ناف بالوں کی صفائی کے لئے بھی ہر وہ چیز استعمال کرنا جائز ہے جس سے بالوں کی صفائی ہوجائے اور جسم کو کوئی نقصان نہ ہو خواہ بلیڈ کا استعمال کریں یا کریم وغیرہ کا دونوں میں کوئی حرج نہیں ہے مقصود بالوں کی صفائی کرنا ہے۔

ریش بچہ

علامہ ابن منظور رحمہ اللہ ریش بچہ کے تعلق سے لکھتے ہیں : العنفقة ما نبت على الشفة السفلى من الشعر

 (لسان العرب:10/304حرف العين)

نچلے ہونٹ سے متصل تھوڑی کے اوپر کے بال کو عربی میں عنفقہ اور (اردو میں) ریش بچہ کہتے ہیں۔

اس بال کے متعلق اہل علم کے دو اقوال ہیں: 

پہلا قول

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ داڑھی میں شامل ہے اس لئے اس کا وہی حکم ہے جو داڑھی کا حکم ہے اسے حلق یا قصر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اسے اس کی حالت پر برقرار رکھنا واجب ہے۔

دوسرا قول

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ داڑھی میں شامل نہیں ہے اس لئے کہ اہل لغت کے مطابق داڑھی کا اطلاق دونوں گالوں اور ٹھوڑی پر اگنے والے بالوں پر ہوتا ہے لہذا نچلے ہونٹ پر اگنے والے بال اس سے خارج ہیں انہیں کاٹنا یا چھیلنا جائز ہے خاص طور سے اس وقت جب کہ انسان کو کھانے پینے میں تکلیف ہو ۔

اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم ۔

علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ ریش بچہ داڑھی کا حصہ نہیں ہے تاہم اسے اپنی حالت پر باقی رکھا جائے الا یہ کہ انسان کو اس سے تکلیف ہو ۔

(لقاءات الباب المفتوح لقاء رقم/9، سؤال/6

اگر انسان کے لئے تکلیف دہ ہو تو ایسی صورت میں اسے زائل کرنا درست ہے۔


2- وہ بال جنہیں شریعت نے کاٹنے یا چھیلنے  سے منع کیا ہے جیسے مرد کے لئے داڑھی کے بال اور مرد وخواتین دونوں کے لئے آبرو کے بال وغیرہ ۔

داڑھی کی حد بندی

یہاں داڑھی کی تحدید شریعت میں موجود نہیں ہے اس لئے لغت سے اس کی حد بندی کی جائے گی لہذا لغت میں اس کی تحدید موجود ہے اس لئے ہم لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں داڑھی کے لئے عربی زبان میں اللحیہ کا لفظ آتا ہے ۔

علامہ ابن منظور رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

"اللحية اسم يجمع من الشعر ما نبت على الخدين والذقن"

(لسان العرب:15/243)
یعنی داڑھی گالوں اور ٹھوڑی پر اگنے والے تمام بالوں کا نام ہے

داڑھی رکھنے کے سلسلے میں ذخیرہ احادیث میں تقریباً پانچ الفاظ آئے ہیں اور سارے الفاظ داڑھی کو بڑھانے اور اسے اپنی حالت پر چھوڑ دینے پر دلالت کرتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے: 

(1) أعفوا

" انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى ".
(صحيح بخاري: 5893)
مونچھیں خوب کتروا لیا کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ۔“

(2) وأرخوا

جُزُّوا الشَّوارِبَ، وأَرْخُوا اللِّحَى خالِفُوا المَجُوسَ

 (صحيح مسلم:260)

مونچھیں اچھی طرح کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ ، مجوس کی مخالفت کرو ۔

(3) أرجوا

امام نووی ودیگر اہل علم نے صراحت کی ہے کہ بعض روایت میں أرخوا کے بجائے أرجوا کا لفظ آیا ہے جو کہ ایک ہی معنی میں ہے

(4) وأوفوا

خالِفُوا المُشْرِكِينَ أحْفُوا الشَّوارِبَ، وأَوْفُوا اللِّحَى (صحيح مسلم:259،صحيح)مشرکوں کی مخالفت کرو ، مونچھیں اچھی طرح تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔‘‘

(5) وفروا

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ "
(صحيح بخاري:5892)

تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔
لہذا داڑھی کو اپنی حالت پر برقرار رکھنا چاہئیے

اسی طرح مونچھ کے تعلق سے بھی اوپر جتنے الفاظ آئے ہیں سب کے سب مونچھ کو کترنے پر دلالت کرتے ہیں لہذا مونچھ کو کترنا اور کاٹنا چاہیے البتہ یہ بات یاد رہے کہ مونچھ کو چھیلنا نہیں چاہیئے اور داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑدینا چاہئے اس میں کسی بھی قسم کی تراش خراش نہیں کرنی چاہیے

کیا شوہر ، بیوی کی خاطر داڑھی صاف کرسکتا ہے ؟

نہیں! شوہر ،بیوی کی خاطر داڑھی صاف نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے کانٹ چھانٹ سکتا ہے کیونکہ داڑھی کاٹنا حرام ہے اور حرام کام میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ
(صحیح بخاری:7257)
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت حلال نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے

لہذا جب خالق اور مخلوق دونوں کی اطاعت میں تعارض اور ٹکراو پیدا ہوجائے تو خالق کی اطاعت کی جائے گی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

آبرو کے بال

آنکھوں کے اوپر والے ہلالی شکل کے بالوں کو ابرو کہتے ہیں اسے بھنویں بھی کہا جاتا ہے۔

مرد وخواتین دونوں کے لئے آبرو کے بال کاٹنا چھیلنا یا باریک کرانا حرام ہے ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لَعَنَ الْوَاشِمَاتِ ، وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ ؛ مُبْتَغِيَاتٍ لِلْحُسْنِ مُغَيِّرَاتٍ خَلْقَ اللَّهِ. (سنن ترمذی :2782 صحیح)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی خاطر ابرو کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اللہ کی بناوٹ ( تخلیق ) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر،
ابرو کے بال اُکھیڑنے کو عربی زبان میں ”النمص” کہتے ہیں۔

اور ابرو کے علاوہ چہرے کے دیگر بالوں کا نمص میں داخل ہونے کے سلسلے میں بعض اہل علم كہتے ہيں كہ: چہرے كے کسی حصے سے بھی بال اتارنا النمص ہی ہے، يہ صرف ابرو كے بالوں كے ساتھ ہى خاص نہيں لیکن درست بات یہ ہے کہ چہرے کے بقیہ بال النمص میں شامل نہیں ہیں کیونکہ النمص کا اطلاق صرف آبرو کے بالوں پر ہوتا ہے جیسا کہ بہت سارے اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔

آبرو کی حد بندی

آبرو  کے بال وہ بال ہیں جو کہ آنکھ کے اوپر والی ہڈی پر نمودار ہوتے ہیں عربی میں آبرو کو حاجب کہتے ہیں کیونکہ یہ آنکھوں کو سورج کی شعاعوں سے بچاتے ہیں۔

(لسان العرب:1 / 298 - 299 )
البتہ ناک کے اوپر یعنی دونوں آبروؤں کے بیچ میں جو بال آجاتے ہیں انہیں زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ آبرو کے بال میں داخل نہیں ہیں اسی طریقے سے اگر آبرو کے بال معمول سے زیادہ گھنے یا بڑے ہوجائیں جس سے آنکھ میں پڑنے کا اندیشہ ہو یا دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ان بالوں کو اکھاڑنے یا اکھڑوانے کے بجائے اس قدر تراش لینا جائز ہے جس سے وہ بال معمول کے مطابق ہوجائیں اور ایسا کرنے والا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ تخلیقی الہی میں تبدیلی کرنے والوں میں شمار ہوگا کیونکہ یہ تخلیق الہی میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ جو بال معمول تخلیق سے تجاوز کرگئے تھے انہیں تخلیق الہی کی طرف لوٹانا ہے۔

کیا عورت شوہر کے لئے آبرو تراش سکتی ہے ؟

عورت شوہر کی زیب وزینت اور خوشی کی خاطر آبرو کے بال نہیں اکھاڑ سکتی ہے اور نہ ہی کانٹ چھانٹ کر اسے خوبصورت بنا سکتی ہے کیونکہ عورت کے لئے شوہر کی اطاعت اور زیب وزینت اختیار کرنا شریعت کے تابع ہے عورت صرف جائز چیزوں میں ہی شوہر کی اطاعت کرسکتی ہے اور اس کے لئے زیب وزینت اختیار کرسکتی ہے۔

3-وہ بال جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے نہ انہیں زائل کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ ہی انہیں باقی رکھنے کا حکم دیا ہے

جیسے ناک کے بال ،پیٹھ سینے بازو پیر اور دبر کے آس پاس کے بال ایسے بالوں کو صاف کرنا جائز ہے یا ناجائز اس سلسلے میں اہل علم کے متعدد اقوال ہیں

پہلا قول

ان بالوں کو صاف کرنا جائز نہیں ہے

 اس لئے کہ ان بالوں کا کاٹنا تخلیق  الہی میں تغیّر کے مترادف ہے، اور تخلیق  الہی میں  تغیّر شیطانی کام ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ [النساء : 119]
(شیطان نے کہا) میں انہیں لازمی حکم کروں گا اور وہ یقینا  تخلیق الہی میں تبدیلیاں کریں گے۔

دوسرا قول

ان بالوں کو زائل کرنا جائز ہے
اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: الحلال ما أحل الله في كتابه ، والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه
(رواه الترمذي :1726 وحسنه الألباني في صحيح الترمذي)
حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے
لہذا بدن کے وہ بال جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے اس کا کاٹنا یا زائل کرنا ،ختم کرنا جائز اور درست ہے کیونکہ ان کے بارے میں شریعت خاموش ہے، کیونکہ شریعت نے کچھ بالوں کو کاٹنے کا حکم دیا ہے اور کچھ  کو کاٹنے سے منع کیا ہے اور کچھ کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے،

تو اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو ان بالوں کو کاٹنے کا حکم دیا گیا اور نہ ہی کاٹنے سے منع کیا گیا لہذا اگرکاٹنا جائز نہ ہوتا تو روک دیا جاتا، اور اگر کاٹنا لازمی ہوتا تو کاٹنے کا حکم دے دیا جاتا۔

علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استدلال کے اصولوں کے مطابق  یہ موقف درست معلوم ہوتا ہے کہ جن بالوں کو کاٹنے سے منع نہیں کیا گیا تو انہیں کاٹنا جائز ہے
(مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" 11/ 205-206)
معلوم ہوا کہ شریعت جن بالوں کے سلسلے میں خاموش ہے جیسے ناک ،پیٹھ ،سینے ،پیٹ ،دبر کے ارد گرد بازو اور پیر وغیرہ کے بال تو ان بالوں کے سلسلے میں انسان کو اختیار ہے چاہے تو صاف کرلے ،چاہے تو باقی رکھے اس سلسلے میں اسے اختیار ہے اگر وہ صاف کرنا چاہے تو ہر اس چیز سے ان بالوں کی صفائی کرسکتا ہے جس سے جسم کو کوئی ضرر اور نقصان نہ پہونچے خواہ وہ بلیڈ ہو یا کریم یا اس کے علاؤہ جو بھی چیزیں دستیاب ہوں ۔

سر منڈانے کا حکم

سر منڈانے كى چھ قسمیں ہیں

پہلى قسم

اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كا قرب حاصل كرنے كے ليے مردوں کا سر منڈانا افضل اور کٹانا مفضول ہے اور اس پر اللہ رب العالمین کی طرف سے اجرو ثواب ہے اور يہ کل چار مواقع پر جائز ہیں

1 - حج كے موقع پر.

2 - عمرہ كرنے كے بعد:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [الفتح: 27]

ان شاء اللہ تم يقينا پورے امن و امان كے ساتھ مسجد حرام ميں داخل ہو گے سرمنڈاتے ہوئے اور سر كے بال كترواتے ہوئے چين كے ساتھ نڈر ہو كر۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ ". قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ ". قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ ". قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " وَالْمُقَصِّرِينَ "

(صحیح مسلم:1301)

اے اللہ ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما ۔‘‘ لوگوں یعنی صحابہ نے کہا اور بال کٹوانے والوں پر ، اے اللہ کے رسول ! فرمایا اے اللہ ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما ۔‘‘ صحابہ نے پھر عرض کی : اور بال کٹوانے والوں پر ، اے اللہ کے رسول ! فرمایا  اور بال کٹوانے والوں پر بھی رحم فرما۔

کیا عورتیں بھی حج وعمرہ کے موقع پر بال صاف کرسکتی ہیں ؟

نہیں! عورتیں حج وعمرہ کے موقع پر سر کے بال صاف نہیں کرسکتی ہیں ان کے لئے سر صاف کرانا جائز نہیں ہے بلکہ انہیں بال کے آخری حصہ سے ایک انچ کے قریب قریب بال کاٹنا چاہیے اس کی دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ليس على النِّساءِ حَلْقٌ، وإنَّما عليهِنَّ التَّقصيرُ 
(سنن ابی داؤد:1985)
عورتوں کے لیے سر منڈانا نہیں ہے ان کے لیے صرف بال کترنا ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے بال منڈانا اور چھیلنا جائز نہیں ہے رہی بات کاٹنے کی تو حج وعمرہ کے موقع پر ایک انچ کے برابر یا اس کے قریب قریب بال کاٹ سکتی ہیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع میں کہتے ہیں :
"مصنف  کا قول کہ: "عورت انگلی کے پورے کے برابر بال کٹوائے" کا مطلب یہ ہے کہ انگلی کے آخری جوڑ سے لے لیکر انگلی کے آخر تک  لمبے بال کاٹے، یعنی اگر چوٹیاں بنائی ہوئی ہیں تو پھر آخری کنارے سے پکڑ کر ایک پورے کے برابر کاٹ دے  اور اگر چوٹیاں نہیں بنائیں  تو بالوں کے آخری کنارے سے ایک پورے کے برابر بال کاٹ دے، اس کی مقدار دو سینٹی میٹر کے قریب ہے، واضح رہے کہ خواتین کے ہاں یہ جو مشہور ہے کہ اپنی انگلی پر لپیٹ کر دیکھے جتنے بال آئیں اتنی مقدار میں کاٹ دے یہی واجب ہے ، یہ بات درست نہیں ہے
(الشرح الممتع: 7/329)

3 - بچے كى ولادت كے ساتويں روز بچے كا سرمنڈانا

اس كى دليل رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن رضى اللہ تعالى عنہ كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى اور فرمايا:

" اے فاطمہ (رضى اللہ تعالى عنہا) اس كا سر مونڈو، اور سر كے بالوں كے برابر چاندى صدقہ كرو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1439 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1226 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے

4- جب كافر شخص مسلمان ہو تو اپنا سر منڈائے، 

اس كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك مسلمان ہونے والے كافر شخص كو فرمايا:"أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ وَاخْتَتِنْ".

" تم اپنے آپ سے كفر كے بال اتارو اورختنہ كراو "
(سنن ابو داود: 356حسن )

علماء رحمہ اللہ کا اس پر اتفاق ہے كہ ان چار مواقع كے علاوہ سر منڈانا مستحب نہيں ہے

(الاستقامۃ للشيخ الاسلام ابن تيميۃ1 / 256 )

دوسری قسم

غير اللہ كے ليے عاجزى و تذلل كى غرض سے سر منڈايا جائے ایسی صورت میں انسان شرک کا مرتکب قرار پائے گا ۔

ابن قيم رحمہ اللہ زاد المعاد ميں كہتے ہيں : كما يحلفها المريدون لشيوخهم ، فيقول أحدهم : أنا حلقت رأسي لفلان ، وأنت حلقته لفلان ، وهذا بمنزلة أن يقول : سجدت لفلان ، فإن حلق الرأس خضوع وعبودية وذل ولهذا كان من تمام الحج ... فإنه وضع النواصي بين يدي ربها خضوعاً لعظمته وتذللاً لعزته وهو من أبلغ أنواع العبودية ولهذا كانت العرب إذا أرادت إذلال الأسير منهم وعتقه حلقوا رأسه وأطلقوه

(المعاد:159/4)

جيسا كہ مريد اپنے پيروں كے ليے قسم اور حلف اٹھاتے ہوئے كہتے ہيں: ميں فلان كے ليے سر منڈاؤنگا، اور آپ نے فلاں كے ليے سر منڈايا ہے، تو يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے كہيں كہ: ميں فلاں كے ليے سجدہ كرونگا، اس ليے كہ سر منڈانا خضوع و عاجزى و انكسارى اور عبوديت اور ذل ميں شامل ہے اسى ليے يہ حج كى تكميل ميں شامل ہوا۔۔۔كيونكہ اپنے پروردگار كے سامنے عاجزى و انكسارى اور اس كى عزت كے سامنے پيشانى كو ركھنا بليغ ترين عبوديت ميں سے ہے، اسى ليے جب عرب كسى قيدى كو ذليل كرنا چاہتے تو وہ اس كا سر مونڈ كر چھوڑ ديتے۔

تيسرى قسم

بدعت مكروہہ

يعنى سر منڈانا مكروہ بدعت ہے، اور اس كى كئى ایک صورتيں ہيں:

ان چار مواقع كے علاوہ تعبد اور تدين كے طور پر سر منڈانا، مثلا اگر سر منڈانا صالحين كى نشانى بنا دى جائے، يا پھر زہد كے اتمام ميں شامل ہو، اور يہ بالكل ايسے ہى جيسے خوارج كيا كرتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نشانيوں كے بارے میں  وارد ہے كہ آپ نے فرمايا:سيماهم التحليق
(صحيح بخارى :7007 )

ان كى علامت سر منڈانا ہو گی 

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: کہ اللہ کے رسول صلى اللہ عليہ وسلم کا قول "ان كى علامت سر منڈانا ہو گى "يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دنیا كى زينت اور بناؤ سنگھار ترك كرنے كى بنا پر ان كى يہ علامت قرار دى، اور ان كا شعار قرار ديا تا كہ وہ اس كے ساتھ پہچانے جائيں، اور يہ ان كى جہالت ہے.... اور اللہ كے دين ميں نئى چيز اور بدعت ہے جو نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور نہ ہى خلفاء راشدين اور ان كے اتباع ميں پائى جاتى تھى "
(شرح العمدۃ :1 / 231 )

اور يہ بھى اس ميں شامل ہے كہ: بعض لوگ توبہ كرنے والے كے معاملہ ميں ،سر منڈانا بھى شامل كرتے ہيں، جو كہ بدعت ہے، نہ تو صحابہ كرام ميں سے كسى نے ايسا كيا، اور نہ ہى تابعين عظام ميں سے كسى نے كيا، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى ایک نےکیا ہے ۔
(مجموع الفتاوى:21 / 118 )

چوتھى قسم

يہ حرام ہے، اور اس كى كئى ایک صورتيں ہيں

1- كسى قريبى رشتہ دار وغيرہ كى موت كى مصيبت كے وقت سر منڈانا
ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بريء من الصالقة والحالقة والشاقة
(صحيح مسلم:149)
بلا شبہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مصيبت كے وقت آہ و بكا كرنے والى، اور مصيبت كے وقت سر منڈانے والى، اور مصيبت كے وقت كپڑے پھاڑنے والى سے برى ہيں

الحالقۃ:  وہ عورت ہے جو مصيبت كے وقت اپنے بال منڈوائے.
الصالقة: وہ عورت جو مصيبت كے وقت مختلف قسم كى آوازيں بلند كرے.
الشاقۃ: وہ عورت جو مصيبت كے وقت اپنے كپڑے پھاڑے.


ابن حجر رحمہ اللہ نے " الزواجر عن اقتراف الكبائر " ميں ذكر كيا ہے كہ: ايک سو سترہواں كبيرہ گناہ يہ ہے كہ: مصيبت كے وقت بال منڈائے جائيں ان كا كہنا ہے: كيونكہ يہ ناراضگى كى علامت اور شعار ظاہر كر رہا ہے، اور تقدير پر عدم رضا كى علامت ہے۔

2- كفار يا فاسق قسم كے افراد جو اپنا سر منڈانے ميں مشہور ہيں ان کے ساتھ مشابہت كرتے ہوئے سر منڈايا جائے، اور بعض اوقات وہ اس پر كوئى معين تيل لگاتا ہے تا كہ وہ بھى ان كى طرح لگے، يا پھر سر كے دونوں جانبوں سے بال چھوٹے، اور درميان سے لمبے كروائے، تو يہ سب مشابہت حرام ہے، اور سيدھى راہ سے انحراف ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:من تشبه بقوم فهو منهم(سنن ابو داود:4031صحیح )
جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے تو وہ انہي ميں سے ہے
القارى رحمہ اللہ كہتےہيں:أي من شبه نفسه بالكفار أو بالفساق أو الفجار ( فهو منهم ) أي : في الإثم يعنى جس نے بھى اپنے آپ كو كفار يا فاسق يا فاجر لوگوں كے مشابہ بنايا تو وہ انہى ميں سے ہے يعنى گناہ ميں ان كى طرح ہے۔

پانچويں قسم

مباح ہے، وہ يہ كہ كسى ضرورت كے پيش نظر سر منڈايا جائے، مثلا بيمارى سے علاج كے ليے، يا پھر جوئيں اور روسی وغيرہ ختم كرنے كے ليے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں : فهذا جائز بالكتاب والسنة والإجماع۔

(مجموع الفتاوى :12 / 117)

کہ یہ قسم كتاب و سنت اور اجماع كے ساتھ جائز ہے

چھٹى قسم

بغير كسى ضرورت و حاجت اور مندرجہ بالا اسباب كے بغير سر منڈايا جائے
تو ایسا کرنا مباح اور جائز ہے اس کی دلیل اللہ کے نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچے كو ديكھا كہ اس كے سر كا كچھ حصہ مونڈا ہوا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:احلقوه كله أو اتركه كله
(سنن ابو داود :4195صحیح)
سارا سر مونڈو يا پھر سارا چھوڑ دو
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وهذا صريح في إباحة حلق الرأس لا يحتمل تأويلاً کہ یہ سر منڈوانے کے جائز ہونے کے بارے میں بہت واضح حدیث ہے اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے

کیا عورت خوبصورتی کے لئے اپنے بال کاٹ سکتی ہے ؟

خواتین کے لیے سر کے بال کاٹنے کی کئی حالات ہیں بعض صورتوں میں کاٹنا حرام اور بعض صورتوں میں کاٹنا جائز اور درست ہے جن حالات میں خواتین کے لئے بال کاٹنا صراحت کے ساتھ حرام ہے وہ درج ذیل حالات ہیں:

اگر عورت اپنے کٹے ہوئے بالوں کو اجنبی لوگوں کے سامنے کھلا رکھے۔
اگر عورت اپنے بالوں کو کٹوا کر کافر عورتوں یا فاسق خواتین کی مشابہت اختیار کرنا چاہتی ہو۔

اگر عورت اپنے بال ایسے انداز سے کٹوائے جس سے مردوں کے بالوں جیسی صورت بن جائے۔

عورت کے بال کوئی اجنبی مرد کاٹے، اور عام طور پر سیلون پر اجنبی مرد ہی بال کاٹتے ہیں۔

اگر عورت اپنے بال خاوند کی اجازت کے بغیر کٹوائے

مندرجہ بالا حالات میں خواتین کے لیے بال کٹوانا حرام ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اور ان حالات میں بال کٹوانے کی حرمت بھی واضح ہے۔

وہ حالات جن میں عورت بال کاٹ سکتی ہے

اور یہ اس وقت ہے جب خاتون کا بال کٹوانے کا مقصد خاوند کو خوش کرنا ہو یا انتہائی لمبے بالوں کی دیکھ بھال میں آنے والی مشقت میں کمی کرنا مقصود ہے، یا اس کے علاوہ کوئی معقول اور جائز وجہ ہو تو پھر بال کٹوانے میں علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ عادات کے متعلق بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ جب تک عادات کے متعلق حرمت کی نص نہیں آتی اس وقت تک ان کا حکم مباح ہوتا ہے؛ اور شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے جس میں عورت کو بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہو، بلکہ شریعت میں ایسے دلائل موجود ہیں جو بال کاٹنے کے جواز پر دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے" مسلم: (320)

"الوفرة"سے مراد ایسے بال ہیں جو کندھوں سے قدرے لمبے ہوں، اس کے معنی میں یہ بھی قول ہے کہ جو بال کانوں کی لو تک پہنچیں انہیں وفرہ کہتے ہیں۔

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت اپنے بالوں کو کاٹ سکتی ہے
( شرح مسلم :4/5)

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عورت کا اپنے سر کے بال کاٹنے کے حوالے سے یہ ہے کہ بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور بعض نے اسے حرام قرار دیا اور کچھ نے اسے جائز کہا ہے تو چونکہ یہ مسئلہ اہل علم کے مابین اختلافی ہے تو ہمیں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا چاہیے، لہذا مجھے اب تک ایسی کسی دلیل کا علم نہیں ہے، جس میں عورت کے لیے سر کے بالوں کو کاٹنا حرام ہو، اس لیے سر کے بالوں کو کاٹنا اصولی طور پر مباح ہو گا، اور اس میں رواج کو معتبر مانا جائے گا، چنانچہ پہلے زمانے میں عورتیں لمبے بال رکھنا پسند کرتی تھیں اور لمبے بالوں کی وجہ سے ناز بھی کرتی تھیں، خواتین اپنے بالوں کو شرعی یا جسمانی ضرورت کی بنا پر ہی کاٹتی تھیں، لیکن اس وقت عورتوں کے افکار بدل چکے ہیں، اس لیے حرمت کا موقف کمزور ہے، اس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، جبکہ کراہت کا موقف بھی غور و فکر کا متقاضی ہے، جبکہ بال کاٹنے کی اباحت کا موقف قواعد اور اصولوں کے مطابق ہے، ویسے بھی صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اپنے سر کے بالوں کو اتنا کاٹ دیتی تھیں کہ وہ وفرہ بن جاتے تھے ۔
لیکن اگر کوئی عورت اپنے بال اتنے زیادہ کاٹ دیتی ہے کہ وہ مردوں جیسے لگنے لگتے ہیں تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی خواتین پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں جیسی شکل و شباہت اختیار کریں۔
اسی طرح اگر کوئی عورت بالوں کو اس انداز سے کاٹتی ہے کہ کافر اور حیا باختہ عورتوں کی مشابہت ہو ، تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔
لیکن اگر کوئی عورت معمولی بال کاٹتی ہے کہ بال مردوں کے بالوں جیسے نہ لگیں ، نہ ہی کافر اور حیا باختہ عورتوں جیسے بال نظر آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے

(اسلام سوال وجواب فتوی نمبر: 139414)

خلاصہ کلام

 یہ ہے کہ جن بالوں کو شریعت نے کاٹنے کا حکم دیا ہے جیسے مونچھ بغل اور زیر ناف کے بال انہیں چالیس دن سے پہلے پہلے صاف کردینا چاہیے اور جن بالوں کو کاٹنے سے شریعت نے منع کیا ہے جیسے داڑھی اور آبرو کے بال انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے اور جن بالوں کے سلسلے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے جیسے ناک ،پیٹھ ،سینہ ،بازو ،پیر وغیرہ کے بال تو ان کو صاف کرنے اور نہ کرنے میں انسان کو اختیار ہے چاہے تو صاف کرے اور چاہے تو اپنی حالت پر چھوڑ دے دونوں صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ہوگا ،اور بیوی شوہر کے لئے یا شوہر بیوی کے لئے دونوں ایک دوسرے کے لئے وہی کام کرسکتے ہیں جو شریعت میں جائز اور درست ہو اس لئے مرد بیوی کی رضامندی کے لئے داڑھی صاف نہیں کرسکتا اور بیوی شوہر کی رضامندی کے لئے آبرو کے بال صاف نہیں کرسکتی اسی طرح عورت اپنے سر کے بال صاف نہیں کرسکتی البتہ وہ اپنی شوہر کی رضامندی کے لئے بال اس قدر چھوٹا کرسکتی ہے جس سے مردوں کی مشابہت نہ ہو تاہم مرد کے لئے سر کے بال صاف کرنا جائز ہے اور کچھ صورتیں ایسی ہیں جس میں مرد کے لئے بال صاف کرنا جائز نہیں ہے اور اسکی تفصیل اوپر گزر چکی ہے اللہ ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

الوداعی کلمات جامعہ اسلامیہ سنابل jamia Islamia Sanabil

محبتوں کا دریا سموئے ہوئے جدا ہورہے ہیں گلشن علم وفن سے ملاقات کے دن ختم ہوئے جدائی کے دن قریب ہوئے آج وہ  لمحہ آچکا ہے  ہے جس میں خوشی کا پہلو کم اور غمی کا پہلو زیادہ ہے جامعہ کے تئیں دل میں محبت کے جو جذبات موجزن ہیں ان کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں اور نہ میرے پاس وہ پیرایہ بیان ہے جس کے ذریعہ میں اپنے غم جدائی کی تفصیل کرسکوں اور مجھ جیسے ناتواں کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جملوں اور الفاظ کے ذریعہ ان جذبہائے محبت کی ترجمانی کرسکے جو دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں کیونکہ اب اس دیار محبوب کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا ہے جس کی گود میں ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کے بیشتر ایام گزارے ہیں اور مشکل ترین وصبر آزما حالات میں بہی ہم نے اسے اپنا جائے پناہ بنایا ہےاے سنابل تیری فضا کتنی راحت بخش تھی جس سے اب ہم اشک چھلکاتے وداع ہو رہے ہیں یقیناً اس وقت کو ہم کیسے بھلا سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین سنابل میں قدم رکھا تہا اور اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو دل میں بسائے ہوئے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا اور یہاں کے چشم صافی سے جام کشید کرنے کے لئے پختہ عزا...

جنات کی حقیقت

  جنات کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں جنات اپنی فطرت وطبیعت کے لحاظ سے ایک غیر مرئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی عبادت کے لئے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف روپ دھارنے کا ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت وقوت سے سرفراز کیا ہے.ذیل کے سطور میں جنات کے تعلق سے ایک اجمالی خامہ فرسائی کی گئی ہے. جنات کی تعریف جنات کی تعریف کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :هم أجسام عاقلة خفية تغلب عليهم النارية والهوائية. [فتح القدیر 303/5] "جن وہ صاحب عقل اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے ان پر ہوائی اور آتشی مادہ غالب ہوتا ہے ". جنات کے ثبوت میں قرآنی دلائل جنات ایک آتشی مخلوق ہیں جس کا ثبوت قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے اللہ رب العالمین نے ان کے نام سے قرآن کی ایک سورت بنام "سورۃ الجن" نازل فرمائی ہم یہاں قرآن مجید سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں جو آتشی مخلوق جنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ. [سورۃ الاحقاف :29] "اور یاد کر...

Qutub Minar قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ

قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ  (اردو خاندہ کے لئے نظر التفات)   از قلم :معاذ دانش   قوت الاسلام مسجد قوت الاسلام مسجد (دہلی)کے صحن کا ایک منظر  سلطان محمد شہاب الدین کے مارے جانے کے بعد سلطان قطب الدین ایبک نے جون ١۲۰٦ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا، یہ عالموں کا قدر دان اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے موسوم ہندوستان کا وہ پہلا ترکی النسل مسلم بادشاہ ہے جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو "دہلی سلطنت" کے نام سے مشہور ہوئی، اورنومبر ١۲١۰ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے"ایبک روڈ"میں دفن ہوا.اسی نے ١۹۹۰ء میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی البتہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں اس مسجد کا صحن مستطیل نما تھا ، اس مسجد کی لمبائی ١٤١ اور چوڑائی ١۰٥ فٹ تھی، صحن کے چاروں طرف دالان بنائے گئے تہے، مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے آج بہی موجود ہیں ،ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی،چونکہ التمشؔ کے دور میں سنگ تراشو...

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل از قلم :معاذ دانش حمید اللہ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے عربی زبان میں اسے "الأضحية" کہتے ہیں۔  الاضحيۃ (قربانی)کی تعریف   ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام (اونٹ ،گائے ،بکری ،بھیڑ) میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی کی مشروعیت   اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36] "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے"۔      اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ[صحیح بخاری :5545] "کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا"۔  اور متعدد اہل علم نے قربانی کی مشروعت پر اجماع نقل کیا ہے [المغني لابن قدامة المقدسي :8/617] ...

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر (عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی) از قلم: معاذ دانش حمید اللہ ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے  کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کرونا وائرس کے بارے ...

سامنے رکھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

سامنے رکہا تہا میرےاور وہ میرا نہ تہا  از قلم :معاذ دانش حمید اللہ   ۲۸_۲۹ جولائی سنہ ۲۰١۸ بروز ہفتہ واتوار مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام اٹھارہواں کل ہند مسابقہ حفظ وتجوید وتفسیر قرآن کریم صبح ١۰:۰۰ بجے اہل حدیث کمپلیکس میں شروع ہوا چھ زمروں پر مشتمل اس پروگرام میں قیام وطعام کا معقول انتظام کیا گیا تہا ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ کے وفود پہونچ چکے تہے لوگوں میں باہمی مسابقت کا عظیم جزبہ دکھائی دے رہا تہا سابقہ روایات کے مطابق جامعہ اسلامیہ سنابل سے بہی طلبہ کا ایک جم غفیر کمپلیکس کے احاطے میں قدم رکھ چکا تہا ہر طرف جوش تہا امنگ تہا خوشیوں کی لہر تہی یہ ساری چیزیں اپنے آپ میں ایک ایک نادر ونایاب عکس پیش کر رہی تہیں امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی ودیگر اراکین مجلس نیز باہر سے تشریف لائے بعض اہل علم کے تاثراتی کلمات کے بعد مسابقے کا باقاعدہ آغاز ہوا لیکن ابہی چند ساعت نہ گزرے ہوں گے کہ ایک اعلان آیا جس میں مقامی افراد کو مسابقے کے بعد بلا ظہرانہ گھر تشریف لے جانے کی تلقین کی گئی تہی اس اعلان نے مسابقے کے دوران ہی ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا مشارکی...

ماہ شعبان،احکام و مسائل

ماہ شعبان ،احکام و مسائل ا ز قلم:معاذدانش حمیداللہ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ شعبان کی وجہ تسمیہ شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔ اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث می...