نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

حصول علم کے دس بنیادی اصول

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد!  علم کے سنگلاخ راستے پر چلنے والے ہر مسافر کے لیے یہ الفاظ نہایت اہم اور رہنمائی فراہم کرنے والے ہیں ، میں اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کو یہی وصیت کرتا ہوں کہ علم کے اس سفر میں ان دس بنیادوں کو اپنا ساتھی بنائیں۔ پہلا:اللہ سے مدد طلب کرنا   انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ کی مدد کے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس لئے جب وہ اپنا معاملہ اپنے نفس کے سپرد کردیتا ہے تو ہلاک وبرباد ہوجاتا ہے اور جب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے اور علم کی طلب میں اسی ذات سے مدد کا خوگر ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کی مدد کرتا ہے.  اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس میں اسی بات پر لوگوں کو ابھارا ہے. فرمایا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين . (سورۃ الفاتحة :٥)  "ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں". اور فرمایا : وَ مَنۡ  یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ  فَہُوَ حَسۡبُہٗ "اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا". یعنی اللہ اس کا کفیل ہوجائے ...
حالیہ پوسٹس

بدن کے بال اور اسلامی تعلیمات

  بدن کے بالوں کی تین قسمیں ہیں 1-وہ بال جنہیں شریعت نے کاٹنے یا حلق کرنے کا حکم دیا ہے جیسے مونچھ ،بغل اور زیر ناف کے بال تینوں کی تفصیل درج ذیل ہے مونچھ کے بال مونچھ کی تعریف اور اس کے حدود کو جاننے سے پہلے ایک قاعدے کو سمجھ لینا فائدے سے خالی نہ ہوگا "وہ تمام الفاظ جن کی حد بندی شریعت میں موجود ہے ان کی حدبندی شریعت ہی سے کی جائے گی اور اگر اس کی تحدید وتعیین شریعت میں موجود نہیں ہے تو لغت میں غور کیا جائے گا اگر اس میں بھی نہیں ہے تو اس کی تحدید عرف سے کی جائے گی"۔ لہذا شریعت میں مونچھ کی حدبندی موجود نہیں ہے اس لئے مونچھ کی تحدید کے لئے ہم لغت کی طرف رجوع کریں گے قاعدہ ہے"كل حكم لم يرد في الشرع ولا اللغة تحديده حد بالعرف " ہر وہ حکم جس کی حدبندی شریعت اور لغت میں موجود نہ ہو اس کی تعیین عرف سے کی جائے گی یعنی سب سے پہلے شریعت پھر لغت  پھر عرف اس ترتیب پر عمل کیا جائے گا۔ مونچھ کی حد بندی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَأَمَّا الشَّارِب فَهُوَ الشَّعْر النَّابِت عَلَى الشَّفَة الْعُلْيَا (فتح الباري:10/346) جہاں تک مونچھ کا تعلق ہے، یہ وہ بال ہیں جو...

ماہ شعبان،احکام و مسائل

ماہ شعبان ،احکام و مسائل ا ز قلم:معاذدانش حمیداللہ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ شعبان کی وجہ تسمیہ شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔ اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث می...

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر (عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی) از قلم: معاذ دانش حمید اللہ ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے  کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کرونا وائرس کے بارے ...

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل از قلم :معاذ دانش حمید اللہ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے عربی زبان میں اسے "الأضحية" کہتے ہیں۔  الاضحيۃ (قربانی)کی تعریف   ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام (اونٹ ،گائے ،بکری ،بھیڑ) میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی کی مشروعیت   اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36] "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے"۔      اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ[صحیح بخاری :5545] "کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا"۔  اور متعدد اہل علم نے قربانی کی مشروعت پر اجماع نقل کیا ہے [المغني لابن قدامة المقدسي :8/617] ...