نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جنات کی حقیقت


  جنات کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں

جنات اپنی فطرت وطبیعت کے لحاظ سے ایک غیر مرئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی عبادت کے لئے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف روپ دھارنے کا ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت وقوت سے سرفراز کیا ہے.ذیل کے سطور میں جنات کے تعلق سے ایک اجمالی خامہ فرسائی کی گئی ہے.

جنات کی تعریف

جنات کی تعریف کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :هم أجسام عاقلة خفية تغلب عليهم النارية والهوائية.

[فتح القدیر 303/5]

"جن وہ صاحب عقل اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے ان پر ہوائی اور آتشی مادہ غالب ہوتا ہے ".

جنات کے ثبوت میں قرآنی دلائل

جنات ایک آتشی مخلوق ہیں جس کا ثبوت قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے اللہ رب العالمین نے ان کے نام سے قرآن کی ایک سورت بنام "سورۃ الجن" نازل فرمائی ہم یہاں قرآن مجید سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں جو آتشی مخلوق جنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ.

[سورۃ الاحقاف :29]

"اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ".
ایک دوسرے مقام پر فرمایا :وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ.

[سورة الحجر :27]

"اوراس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ  سے پیدا کیا" ۔
ان آیات مبارکہ سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ جنات کی ایک حقیقت ہے ان کا وجود ہےان کا انکار ممکن نہیں.

جنات کے ثبوت میں حدیثی دلائل

احادیث صحیحہ ہر ایک طائرانہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کو اس آتشی مخلوق کے متعلق واضح ارشادات مرحمت فرمائے ہیں جو اس کے وجود پر دلالت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ قَالَ : فَانْطَلَقَ بِنَا، فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ".

[صحيح مسلم :450]

"میرے پاس جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور ان پر قرآن کی تلاوت کی .

(ابن مسعود) کہتے ہیں کہ پہر آپ ہم کو اس جگہ لے گئے اور وہاں جنوں کے اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے".

اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :"إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".

[صحیح بخاری :609]

" میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے".مذکورہ بالا احادیث صحیحہ کی روشنی میں یہ بات پائے ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ دنیا میں جنات کی ایک حقیقت ہے فاسد تاویلات کے ذریعہ قطعی طور پر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا .

جنات کے ثبوت میں عقلی دلائل

انسان کامل العقل نہیں ہے بلکہ ناقص العقل ہے جیسے جیسے اس کی پرورش وپرداخت ہوتی جاتی ہے بحث وتحقیق میں آگے بڑھتا جاتا ہے بہت ساری چیزیں جس سے وہ ابتداء ناواقف تہا مرور ایام کے ساتھ اس سے واقف ہوتا جاتا ہے لیکن علم کی انتہا اور اس میں کمال کو کبہی نہیں پہونچتا اس لئے بحیثیت انسان بہت ساری چیزیں جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں ضروری نہیں کہ ہر انسان اس کا ادراک کرسکے لھذا کوئی بہی عاقل محض عدم ادراک کی وجہ سے ان حقیقتوں کا انکار نہیں کرسکتا اگر وہ ایسا کرتا ہے تو ناقابل اعتبار سمجھا جائے گا اس لئے کہ جب اس کا علم کامل نہیں اس کی عقل کامل نہیں تو ضرور ہے کہ اس کا مرئی وغیر مرئی تمام اشیاء کی حقیقت کا ادراک کرنا بہی غیر کامل ونامکمل ہو اور قاعدہ "عدم رؤیت سے عدم حقیقت لازم نہیں آتا "چنانچہ عبد الکریم عبیدات لکھتے ہیں کہ :إن العقل لا يمنع من وجود عوالم غائبة عن حِسِّنا، لأنه قد ثبت وجود أشياء كثيرة في هذا الكون لا يراها الإنسان ولكنه يحس بوجودها، وعدم رؤية الإنسان لشيء من الأشياء لا يستلزم عدم وجوده.

 [عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنۃ :82_83]

"عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم اس غیبی دنیا کا انکار کردیں جنہیں ہم دیکھتے نہیں اس لئے کہ اس دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جنہیں انسان آنکھوں سے نہیں دیکھتا پہر بہی اس کے موجودہونے پر یقین کرتا ہے لہذا کسی بہی چیز کو نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا وجود ہی نہیں ہو".

آگے مزید لکھتے ہیں :کہ ان نهاية العقل البشري هي العجز عن إدراك اسرار الكون وإن اكبر الجهل ان ننكر ما في الكون من آيات الله وعجائب الخلق بدعوى أنها أشياء فوق العقل والتصور لا بد للإنسان أن يرتد صاغرا ذليلا إلى عالم الإيمان والروح ان يرتد مؤمنا بقوة فوق عقله وبعوالم فوق ما يدرك الحس وما يعرف بالمشاهدةفَلَاۤ  اُقۡسِمُ بِمَا  تُبۡصِرُوۡن وَ مَا  لَا تُبۡصِرُوۡنَ [الحاقة:38_39]إن كل ما يتعلق بعوالم غير المنظورة كالجن والملائكة والأرواح يجب أن تخضع عقولنا حيالها إلى ما جاء به الوحي لاننا بالعقل وحده نضل في فهم الروحانيات والغيبيات.

 [عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنۃص88]

"انسانی عقل کی انتہا ودرماندگی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اس کائنات کے بے شمار اسرار ورموز سے ناواقف ہے اور یہ بہت بڑی جہالت کی بات ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کی جو عظیم نشانیاں و عجائبات ہیں ان کا انکار ہم صرف اس وجہ سے کردیں کہ وہ عقل وتصور سے باہر ہیں اللہ تعالی فرماتاہے {پس میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہواور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے} بے شک جن چیزوں کا تعلق بہی غیبی دنیا سے ہے مثلا جنات فرشتے اور روحوں کا وجود وغیرہ اس کو تسلیم کرنے کے لئے اپنی عقل کو وحی مقدس (قرآن سنت) کے حوالے کردیں کیونکہ روحانیت اور غیبیات کی حقیقت جاننے کے لئے صرف عقل پر اعتماد کرنا ہماری گمراہی کا سبب ہے".

علامہ محمد رشید رضا(متوفی1354ھ) لکھتے ہیں:ولو كان الاستدلال بعدم رؤية الشيء على عدم وجوده صحيحاً وأصلاً ينبغي للعقلاء الاعتماد عليه، لما بحث عاقل في الدنيا عما في الوجود من المواد والقوى المجهولة، ولما كشفت هذه الميكروبات التي ارتقت بها علوم الطب والجراحة إلى الدرجة التي وصلت إليها،

[تفسیر المنار:366/8]

"اگر کسی چیز کے نہ دیکھنے سے اس کے عدم وجود پر دلیل لانا صحیح ہوتا تو دنیا کا کوئی بہی ہوش مند انسان اس عالم موجودات میں غیر محسوس طاقتوں اور نظروں سے اوجھل مادوں کی تلاش نہ کرتا اور طب وجراحت کے میدان میں جن تاریک ترین جراثیم کی کھوج کی گئی ہے ان کا انکشاف نہ ہوتا".

 جن وشیاطین کے درمیان فرق

بسا اوقات جنوں کی جگہ شیطانوں کا اور شیطانوں کی جگہ جنوں کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک مخلوق ہیں یا دو الگ الگ مخلوق ؟بنیادی طور پر دونوں ایک ہی جنس یعنی جنوں کی جنس سے ہیں اور دونوں آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اس لحاظ سے جنات اور شیاطین میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا البتہ ایک دوسرے لحاظ سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے وہ یہ کہ جنوں میں نیک وبد مسلم وغیر مسلم ہر طرح کے جن پائے جاتے ہیں جبکہ شیاطین عام طور پر ان جنوں کو کہا جاتا ہے جو انتہائی بد شریر غیر مسلم اور کافر ہیں گویا ہر وہ جن جو انتہائی سرکش نا فرمان اور اللہ تعالی کا باغی ہو شیطان کہا جاتا ہے کیونکہ شیطان کا لغوی مطلب ہے سرکش یہی وجہ ہے کہ انسانوں جنوں اور جانوروں میں سے جو کوئی سرکشی کرے اسے عربی لغت کی رو سے شیطان کہہ دیا جاتا ہے .

[جنات کا پوسٹمارٹم: 323]

جنات کی تخلیق کب ہوئی ؟

جنوں کی ابتدائی تخلیق کی صحیح تعیین کرنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی واضح نص موجود نہیں ہے جس سے ان کی تخلیق کی صحیح تعیین ہوسکے البتہ یہ چیز معلوم ہے کہ جنوں کی تخلیق انسانوں سے پہلے ہوئی ہے جس کی صراحت قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡم.

ِ[سورة الحجر :26_27]

یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے ۔ 
اوراس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ  سے پیدا کیا ۔

اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ جنات کی تخلیق انسانوں سے پہلے ہوئی ہے.

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ مفسرین کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :خلقت الجن قبل آدم عليه السلام، وكان قبلهم في الأرض، الحن والبن، فسلط الله الجن عليهم فقتلوهم، وأجلوهم عنها، وأبادوهم منها، وسكنوها بعدهم.

[البدايةوالنهاية:106/1]

جنات آدم سے پہلے پیدا کئے گئے ہیں جبکہ ان سے یعنی جنات سے قبل زمین پر حنون وبنون (شریر ارواح اور بلاؤں) نے ڈیرا ڈال رکھا تہا چنانچہ اللہ تعالی نے ان پر جنات مسلط کردیا جنہوں نے ان حنون وبنون کو ختم کردیا اور ان کی جگہ زمین پر خود بستیاں بسا لیں.

کیا جنات بہی شریعت کے مکلف ہیں ؟

انسان کی طرح جنات بہی شریعت اسلامیہ کے مکلف ہیں دونوں کی تخلیق کا مقصد اللہ واحد کی عبادت ہےان میں بہی نیک وبد ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جس طریقے سےانسانوں میں پائے جاتے ہیں اور اپنے عمل کے بقدر ثواب وعقاب کے مستحق ہوتے ہیں. دونوں کے لئے یہ دنیا دار الامتحان اور آخرت دار الجزاء ہے دونوں کا آخری ٹھکانا جنت یا دوزخ ہے.
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (متوفى:751ھ)فرماتے ہیں :کہ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنوں میں مومن کافر نیک وبد سبہی ہوتے ہیں اللہ تعالی نے ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:
وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنَّا دُوۡنَ ذٰلِکَ ؕ  کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا.

[الجن :11]

 "اور یہ کہ ( بیشک )  بعض تو ہم میں نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ،  ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں ۔
مجاہد (تابعی) کہتے ہیں: کہ اس سے مراد مسلمان اور کافر ہیں .

اللہ تعالی نے جنوں کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا:وَّ اَنَّا مِنَّا  الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ ؕ فَمَنۡ  اَسۡلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوۡا  رَشَدًا .

(الجن :14)

 ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں  پس جو فرمانبردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا ۔ 
اللہ کا فرمان ہے:وَ مَاۤ  اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ  اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی ؕ .

(یوسف :109)

 "آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے"   ۔

اس  آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جن ؛ عورت اور بدوی کو کبہی رسول نہیں بنایا گیا کیونکہ رجال کا لفظ بغیر کسی قید کے استعمال ہو تو اس سے انسان مرد ہی مراد ہوتے ہیں.

اور فرمان الہی ہے:
وَّ  اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ  مِّنَ  الۡجِنِّ فَزَادُوۡہُمۡ  رَہَقًا.[الجن :6]

"بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے "۔

اس آیت میں جنوں کے لئے لفظ رجال جو استعمال ہوا ہے تو وہ مطلق استعمال نہیں ہوا بلکہ "من الجن "کے الفاظ سے مقید استعمال ہوا ہے یعنی وہ جنوں کے مرد ہیں.

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کافر جن جہنم میں جائیں گے قرآن میں کئی مقامات پر اس کے دلائل موجود ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ  وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ.

[السجدة :13]

"اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب  فرما دیتے ،  لیکن میری  یہ بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا " ۔

مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن وانس کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں انسانوں کی طرح جنوں پر بہی آپ کی اطاعت لازم ہے سورۃ الرحمن میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں کو بہی شریعت کا مکلف ٹھرایا گیا ہے اسی لئے اکثر آیات کے بعد فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ [سورة الرحمن :13]کے الفاظ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں ان دونوں مخلوقات کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا ہے.

[طريق الهجرتين لابن القيم: 168]

اسی طرح امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ (متوفی 606ھ)وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن کی تفسیر میں فرماتے ہیں:ثالثها أنْ يَعْلَمَ القَوْمُ أنَّ الجِنَّ مُكَلَّفُونَ كالإنْسِ.

" تیسرا فائدہ یہ کہ بلاشبہ جنات بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مکلف ہیں".

(التفسیر الکبیر:665/10)

مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن وانس دونوں کی طرف نبی اور رسول بنا کر بہیجے گئے اور جس طرح انسان شریعت کے جملہ اوامر ونواہی کا مکلف ہے اسی طرح جنات بہی شریعت کے مطابق جملہ اوامر ونواہی کی پیروی کے مکلف ہیں.

کیا کافر جنات جہنم میں داخل ہوں گے؟

کافر جنات کے جہنم میں داخل ہونے کے سلسلے میں متعدد دلائل موجود  ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے اللہ تعالی فرماتا ہے :وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ.

[سورة الأعراف :179]

"اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں".

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :لَاَمۡلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ  وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ .

[سورة السجدة :13]

"میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا"  ۔ 

ابن مفلح المقدسي رحمہ اللہ (متوفی763ھ) کہتے ہیں :الجن مكلفون في الجملة يدخل كافرهم النار، ويدخل مؤمنهم الجنة.

(کتاب الفروع :401)

جنات تمام امور میں (شریعت کے)مکلف ہیں ان میں سے جو کافر ہیں جہنم میں داخل ہوں گے اور جو مومن ہیں جنت میں داخل ہوں گے.
امام سيوطي رحمہ اللہ (متوفی911ھ)فرماتے ہیں: لا خلاف في أن كفار الجن في النار، [الاشباه والنظائر:406 ]
"اس میں کوئی اختلاف نہيں کہ کافر جنات جہنم میں داخل ہوں گے".


کیا مومن جنات جنت میں داخل ہوں گے ؟

چونکہ جنات کے جنت میں داخل ہو نے کاکوئی حتمی ثبوت موجود نہیں ہے اس لئے اس بارے میں علمائے دین میں باہمی اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ جنت میں جائیں گے؟ یا محض اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے آتش دوزخ کے عذاب سے نجات پائیں گے ؟ بہر حال اس بارے میں دو اقوال میں صحیح تر قول یہ ہے کہ بربنائے فیض قرآنی اور اللہ جل شانہ کے اس عمومی ارشاد کے مطابق کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ [ الرحمن : 46 - 47 ] یعنی اپنے رب کے مقام حاکمیت کو سمجھنے اور اس سے ڈرنے والے سب کے سب جنت میں جائیں گے ایسے جنات کا بہی جنت میں جانا یقینی ہے.

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (متوفی751ھ)فرماتے ہیں:کہ آخرت میں مومن جنوں کے بارے میں کیا حکم ہوگا (تو اس سلسلے)میں جمہور متقدمین اور متاخرین کا موقف ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ باب قائم کیا ہے" باب ثواب الجن وعقابہم" اور دلیل کے طور پر کئی آیات پیش کئے ہیں پہر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ذکر کی ہے کہ انہوں نے صعصہ انصاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا :"إِنِّي أَرَاك تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ وَبَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ""، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

[صحیح بخاری :3296]

"کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور  ( وقت ہونے پر )  نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیونکہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی"۔

[طريق الهجرتين لابن القيم:246]

البتہ بعض لوگوں نے درج ذیل آیت کریمہ سے استدلال کیا ہےکہ جنات جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ ان کی نیک اعمالیوں کا بدلہ فقط عذاب جہنم سے رہائی ہوگی جنت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا فرمان الہی ہے :یٰقَوۡمَنَاۤ  اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللّٰہِ  وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ  مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ  وَ  یُجِرۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ [سورۃ الاحقاف:31]"(جنوں نے کہا) اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو ،  اس پر ایمان لاؤ  تو اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناہ دے گا" .

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ اس آیت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ ایماندار جنوں کو بہی جنت نہیں ملے گی ہاں عذاب سے وہ چھٹکارا پالیں گے یہی ان کی نیک اعمالیوں کا بدلہ ہے اور اگر اس سے زیادہ مرتبہ بہی انہیں ملنے والا ہوتا تو اس مقام پر یہ مومن جن اسے ضرور بیان کردیتے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مومن جن جنت میں نہیں جائیں گے اس لئے کہ وہ ابلیس کے خاندان سے ہیں اور اولاد ابلیس جنت میں نہیں جائے گی لیکن صحیح یہ ہے کہ مومن جن مثل ایمان دار انسانوں کے ہیں اور وہ جنت میں جائیں گے جیسا کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے بعض لوگوں نے اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہےلَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَان.

ٌّ[سورة الرحمن :74]

"یعنی حوران بہشتی کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان کا ہاتھ لگا نہ کسی جن کا" لیکن اس استدلال میں نظر ہے اس سے بہت بہتر استدلال اللہ عزوجل کے اس فرمان سے ہے  ولمن خاف مقام ربہ جنتان فبای الاء ربکما تکذبان "یعنی جو کوئی رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو جنتیں ہیں پھر اے جن وانس تم اپنے پروردگار کی کونسی نعمت کو جھٹلاتے ہو" اس آیت میں اللہ تعالی انسانوں اور جناتوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ان کے نیک کار کا بدلہ جنت ہے اور اس آیت کو سن کر مسلمان انسانوں سے بہت زیادہ شکر مسلمان جنوں نے کیا اور اسے سنتے ہی کہا "وَلَا بِشَيء مِنْ آلَائِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ، فَلَكَ الْحَمْدُ"  کہ ہم تیری نعمتوں میں سے کسی کے انکاری نہیں ہم تو بہت بہت شکر گزار ہیں.
ایسا تو نہیں جب کافر کو جہنم میں ڈالا جائے گا جو مقام عدل ہے تو مومن جنات کو جنت میں کیوں نہ لے جایا جائے؟جو مقام فضل ہے بلکہ یہ بہت زیادہ لائق اور بدرجہ اولی ہونے کے قابل ہے اور اس پر وہ آ یتیں بہی دلیل ہیں جس میں عام طور پر ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلا اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتۡ لَہُمۡ  جَنّٰتُ الۡفِرۡدَوۡسِ نُزُلًا .

[سورۃ الکہف :107]

"جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی اچھے کئے یقیناً ان کے لئے الفردوس  کے باغات کی مہمانی ہے".

یعنی ایمانداروں کا مہمان خانہ یقینا جنت الفردوس ہے اور جنت کا تو یہ حال ہے کہ تمام ایمانداروں کے داخل ہوجانے کے بعد بہی اس میں بے حدوحساب جگہ بچی رہے گی اور پہر ایک نئی مخلوق پیدا کرکے انہیں اس میں آباد کیا جائے گا پہر کوئی وجہ نہیں کہ ایماندار اور نیک عمل والے جن جنت میں نہ بہیجے جائیں اور اس آیت( يا قومنا اجيبوا...) میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں.

(1)گناہوں کی بخشش.

(2)عذاب سے رہائی.

 جب یہ دونوں چیزیں ہیں تو یقیناً یہ دخول جنت کو مستلزم ہیں اس لئے کہ آخرت میں یا تو جنت ہے یا جہنم پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا وہ قطعا جنت میں جانا چاہئے اور کوئی نص صریح یا ظاہر اس بات کے بیان میں وارد نہیں ہوئی کہ مومن جنات دوزخ سے بچ جانے کے باوجود جنت میں نہ جائیں اگر کوئی اس قسم کی صاف دلیل ہو تو بے شک ہم ماننے کے لئے تیار ہیں _اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے_".

جنات کی شکل وصورت اوربعض صفات

جنات کی شکل وصورت اور بعض دیگر صفات جن کا تذکرہ کتاب وسنت اور دیگر تاریخی کتابوں کے حوالے سے ملتا ہے ہم یہاں اجمالی طور پر ذکر کررہے ہیں وہ شکل وصورت جو نصوص شرعیہ سے ثابت ہیں انہیں میں سے  آنکھ کان اور دل بہی ہے جس سے وہ دیکھتے سنتے اور غور وفکر کرتے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ  ۫ ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ.

[سورۃ الاعراف :179]

"اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں  جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے ۔  یہ لوگ   چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں یہی لوگ غافل ہیں" ۔

اسی طرح ایک حدیث میں ان کے ہاتھ اور انگلیوں کا بہی تذکرہ ملتا ہے جس سے وہ کھانا تناول کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِهِ، وَإِذَا شَرِبَ فَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِهِ ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، وَيَشْرَبُ بِشِمَالِهِ ".

[صحیح مسلم :2020]

"جب تم میں سے کو ئی کھائے تو داہنے ہاتھ سے کھائے جب پئے تو داہنے ہاتھ سے پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے ".
اس حدیث سے شیطان کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ کھانے کے لئے بائیں ہاتھ کا استعمال کرتا ہے اور ایک دوسری حدیث جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
"كُلُّ بَنِي آدَمَ يَطْعُنُ الشَّيْطَانُ فِي جَنْبَيْهِ بِإِصْبَعِهِ حِينَ يُولَدُ غَيْرَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَهَبَ يَطْعُنُ فَطَعَنَ فِي الْحِجَابِ".

 [صحیح بخاری :3286]

 ”شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے جب انہیں وہ کچوکے لگانے گیا تو پردے پر لگا آیا تھا  ( جس کے اندر بچہ رہتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا ) ۔“

اسی طرح شیطان آواز لگا سکتاہے ،زبان آور اور صاحب نطق ہے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ[سورة بني إسرائيل:64]

 "ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے گا بہکا  لے".

شیطان کے دو سینگ بہی ہیں جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کیا ہےآپ نے فرمایا:
وَلَا تَحَيَّنُوا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ أَوِ الشَّيْطَانِ".

[صحیح بخاری :3273]

" اور نماز سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے سر کے یا شیطانوں کے سر کے دونوں سینگ کے بیچ میں سے نکلتا  ہے".

ان دلائل کے علاوہ بہی اس سلسلے میں کئی دلائل موجود ہیں جو شیطان کی منظر کشی  کرتے ہیں لیکن شیطان کی وہ خوفناک شکل وصورت جو لوگوں کے درمیان مشہور ہے نصوص شرعیہ کی روشنی میں ہمیں نہیں ملتیں.

ہاں البتہ تاریخی لحاظ سے یہ بات ملتی ہے کہ قرون وسطی کے نصاری شیطان کی تصویر ایک گھنی داڑھی والے کالے لحیم شحیم مرد کی شکل میں بناتے تہے جن کے حواجب بلند ہوتی اس کے ہونٹوں سے دھویں کی لپٹیں نکل رہی ہوں اور بکرے کی طرح اس کے سم سینگ اور دم بہی ہوں.

[جادو کی حقیقت: 445]


جنات کی رہائش گاہیں

جنات کے شروفساد سے بچنے کے لئے ان کی جائے سکونت اور مقامات کو جاننا اور ان کی رہائش گاہوں کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ایسی جگہوں پر جاتے وقت احتیاط برتا جائے اور ان کی ایذا وتکالیف ، ظلم وزیادتی سے بچا جا سکے شریعت نے جنوں کے شروفساد ان کی ایذا وتکالیف ظلم وجور سے بچنے کے لئے بہت سارے ایسے مقامات کی تعیین کی ہے جہاں عموما جنوں کا بسیرا ہوتا ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد وہاں پائی جاتی ہے ہم ان میں سے چند کا تذکرہ حوالہ قرطاس کر رہے ہیں.

(1)حمام وبیت الخلاء جنوں کی آماجگاہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان ہذہ الحشوش محتضرۃ فاذا أتى أحدكم الخلاء فليقل أللهم اني اعوذبك من الخبث والخبائث .

[سنن ابو داؤد:6صحيح]

"قضائے حاجت ( پیشاب و پاخانہ ) کی یہ جگہیں جن اور شیطان کے موجود رہنے کی جگہیں ہیں، جب تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء میں جائے تو یہ دعا پڑھے «أعوذ بالله من الخبث والخبائث» میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ناپاک جن مردوں اور ناپاک جن عورتوں سے" ۔

(2)زمین کی سوراخوں سرنگوں اور غاروں میں جنات کثرت سے پاۓ جاتے ہیں عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ َ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْجُحْرِ  ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالُوا لِقَتَادَةَ:‏‏‏‏ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْبَوْلِ فِي الْجُحْرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ يُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّهَا مَسَاكِنُ الْجِنِّ.

[سنن ابو داؤد :29صحيح]

 "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ لوگوں نے قتادہ سے پوچھا: کس وجہ سے سوراخ میں پیشاب کرنا ناپسندیدہ ہے؟ انہوں نے کہا: کہا جاتا تھا کہ وہ جنوں کی جائے سکونت  ( گھر )  ہے".

(3)جنات بازار میں کثرت سے پائے جاتے ہیں کیونکہ بازار میں غیر شرعی کاروبار کے ساتھ ساتھ خلاف شرع کام بہی پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا :لا تكوننَّ ، إن استطعتَ ، أولَ من يدخل السوقَ ولا آخرَ من يخرج منها . فإنها معركةُ الشيطانِ ، وبها ينصبُ رايتَه .

[صحیح مسلم :2451]

"کہ نا تو بازار میں داخل ہونے میں پہل کرو اور نہ ہی سب سے آخر میں بازار سے نکلو کیونکہ وہ شیطان کا اکھاڑا ہے اور اسی میں اپنا جھنڈا نصب کرتا ہے ".

(4)جنات لوگوں کے ہمراہ گھروں میں بہی قیام کرتے ہیں جیسا کہ ابو سائب کی حدیث جس میں وہ بیان کرتے ہیں :"کہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اسی دوران کہ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کی چارپائی کے نیچے مجھے کسی چیز کی سر سراہٹ محسوس ہوئی، میں نے  ( جھانک کر )  دیکھا تو( وہاں )سانپ موجود تھا، میں اٹھ کھڑا ہوا، ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہوا تمہیں؟  ( کیوں کھڑے ہو گئے )  میں نے کہا: یہاں ایک سانپ ہے، انہوں نے کہا: تمہارا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میں اسے ماروں گا، تو انہوں نے اپنے گھر میں ایک کوٹھری کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میرا ایک چچا زاد بھائی اس گھر میں رہتا تھا، غزوہ احزاب کے موقع پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اہل کے پاس جانے کی اجازت مانگی، اس کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ جائے، وہ اپنے گھر آیا تو اپنی بیوی کو کمرے کے دروازے پر کھڑا پایا، تو اس کی طرف نیزہ لہرایا ( چلو اندر چلو، یہاں کیسے کھڑی ہو ) بیوی نے کہا، جلدی نہ کرو، پہلے یہ دیکھو کہ کس چیز نے مجھے باہر آنے پر مجبور کیا، وہ کمرے میں داخل ہوا تو ایک خوفناک سانپ دیکھا تو اسے نیزہ گھونپ دیا، اور نیزے میں چبھوئے ہوئے اسے لے کر باہر آیا، وہ تڑپ رہا تھا، ابوسعید کہتے ہیں، تو میں نہیں جان سکا کہ کون پہلے مرا آدمی یا سانپ؟  ( گویا چبھو کر باہر لانے کے دوران سانپ نے اسے ڈس لیا تھا، یا وہ سانپ جن تھا اور جنوں نے انتقاماً اس کا گلا گھونٹ دیا تھا )  تو اس کی قوم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارے آدمی  ( ساتھی )  کو لوٹا دے، ( زندہ کر دے )  آپ نے فرمایا:  اپنے آدمی کے لیے مغفرت کی دعا کرو   ( اب زندگی ملنے سے رہی )  پھر آپ نے فرمایا: إِنَّ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ أَسْلَمُوا بِالْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ فَحَذِّرُوهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ إِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدُ أَنْ تَقْتُلُوهُ فَاقْتُلُوهُ بَعْدَ الثَّلَاثِ۔

[سنن ابو داؤد :5257صحیح]

"مدینہ میں جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوئی ہے، تم ان میں سے جب کسی کو دیکھو  ( سانپ وغیرہ موذی جانوروں کی صورت میں )  تو انہیں تین مرتبہ ڈراؤ کہ اب نہ نکلنا ورنہ مارے جاؤ گے، اس تنبیہ کے باوجود اگر وہ غائب نہ ہو اور تمہیں اس کا مار ڈالنا ہی مناسب معلوم ہو تو تین بار کی تنبیہ کے بعد اسے مار ڈالو".

ان نصوص کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ وہ زیادہ تر ویرانوں صحراؤں نجاستوں کے مقامات مثلا قضائے حاجت کی جگہوں غسل خانوں جانور کی گندگی پہینکنے کی جگہوں کوڑا کرکٹ کے مقامات اور قبرستانوں میں رہتے ہیں یعنی وہ تمام جگہیں ان کے مکانات ورہائش گاہیں ہیں جہاں گندگی اور اس قسم کے دیگر نجاست وغلاظت کی کثرت پائی جاتی ہے کیونکہ اس طرح کے مکانات کو وہ پسندکرتے ہیں اور اسی کے مطابق لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں لہذا ہمیں ان جگہوں میں جاننے اوراس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے.
جنات کے طبقات

اہل علم نے اپنی کتابوں میں جنوں کے مختلف طبقات کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ إمام ابن عبد البر رحمہ اللہ (ت463ھ)فرماتے ہیں: " الجن عند أهل الكلام والعلم باللسان منزلون على مراتب:
فإذا ذكروا الجن خالصا قالوا: جني .
فإن أرادوا أنه ممن يسكن مع الناس، قالوا: عامر والجمع عمّار وعوامر.
فإن كان ممن يعرض للصبيان، قالوا: أرواح .
فإن خبث وتعزم فهو شيطان .
فإن زاد على ذلك فهو: مارد .
فإن زاد على ذلك وقوي أمره، قالوا: عفريت، والجمع: عفاريت والله أعلم بالصواب "
[آكام المرجان في أحكام الجان: 21]
اہل کلام واہل زبان کے یہاں جنوں کے درج ذیل طبقات ہیں.

(1)جب وہ خالص جن کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں جنی.

(2)اگر لوگوں کے ساتھ گھروں میں رہنے والا ہو تو اسے عامر کہتے ہیں اور اس کی جمع عمار اور عوامر ہے.

(3)اگر وہ بچوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا ہوتو ارواح (بدروحیں) کہتے ہیں.

(4)اگر وہ خباثت وسرکشی ہی پر کمربستہ رہے تو شیطان کہتے ہیں.

(5)اگر وہ خباثت میں بڑھ جائے تو اسے مارد کہتے ہیں.

(6)اور اگر اس سے بہی تجاوز کرجائے( اور چٹانیں منتقل کرسکے) اور اس کی رعونت وتکبر حد سے بڑھ جائے تو اسے عفریت کہتے ہیں."

جنات کی خوراک

جنات کا شمار ان مخلوقات میں ہوتا ہے جو کھاتے پیتے ہیں ان کی بعض غذا انسانوں جیسی اور بعض غذا انسانوں سے مختلف ہوتی ہیں وہ غذا جو ان کی غذا میں شامل ہے وہ کچھ یوں ہیں گوبر ہڈی اور وہ تمام غذا جو زمین پر گرجائے اور اٹھا کر نا کھایا جائے اور ہر نشہ آور اشیاء شیطان کی غذا ہیں.
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ(متوفی 751ھ) انما الخمر والمیسر سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نشہ آور اشیاء شیطان کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے ہیں.

جنات کی انسانوں سے شادیاں

جنات انسان سے شادیاں کرسکتے ہیں ایسا ممکن ہے اگر چہ نادر الوقوع ہے تاہم یہ شادیاں عموما اضطراری حالت میں ہوتی ہیں باہمی رضامندی سے نہیں ہوتیں نہ ہی ان کے درمیان ہونے والی باہمی شادیاں شوہر بیوی کے حق میں باعث سکون ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں کی جنسیں علحدہ اور فطرت وطبیعت میں اختلاف کے سبب دونوں کا ہم مزاج ہونا اور ان کے مابین توافق کا پایا جانا غیر ممکن ہے نیز انس وجن کے مابین جنسیت کے اختلاف کے سبب قائم ہونے والی ازدواجی نظام قرآنی نص کے صریح خلاف ہے کیونکہ ازدواجی زندگی کا الہی نظام جنسیت کی ہم آہنگی کے ساتھ مربوط ہے اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ .

[سورۃ النساء :1]

" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،  جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادیں.
اور یہ بات متحقق ہے کہ جن وانس کے درمیان قائم ہونے والی ازدواجی زندگی جنسیت کے اختلاف کےسبب باعث سکون نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اس راستے میں پائے جانے والے مفاسد کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل علم نے اس کا سد باب کیا ہے اور اسے نا پسند قرار دیا ہے چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [متوفى728ھ]فرماتے ہیں :وقد يتناكح الإنس والجن ويولد بينهما ولد وهذا كثير معروف وقد ذكر العلماء ذلك وتكلموا عليه وكره أكثر العلماء مناكحة الجن.

[مجموع الفتاوى :120/19]

"کہ بسا اوقات جنوں اور انسانوں کے نکاح ہوتے ہیں اور اولاد بہی جنم لیتی ہے اور یہ ایسا ہوتا ہے جو کہ معروف ہے لیکن اہل علم نے اس پر کافی بحث ومباحثہ کیا ہے اور جن وانس کے ما بین نکاح کو ناپسند خیال کیا ہے".

جنات وانسان کا باہمی ملاپ

عموما یہ بات خلاف عقل معلوم ہوتی ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ جنات آتشی مخلوق ہیں اور انسان خاکی تو آگ وپانی کا ملاپ کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور اس ملاپ کے پیچھے اولاد کا ہونا خلاف عقل ہے کیونکہ جنات کے آتشی عنصر کی وجہ سے عورت کا حاملہ ہونا ممکن نہیں اس لئے کہ نطفہ انسانی میں رطوبت پائی جاتی ہے جو یقینا آگ کی گرمی سے خشک ہوکر ختم ہوجائیگی یا یہ کہ جس طرح نطفہ انسانی عناصر مٹی وپانی کے سبب رطوبت پر مشتمل ہوتا ہے اسی طرح نطفہ جنات آگ وہوا کے زیر اثر رطوبت سے عاری اور خشک ہوگا اس اعتبار سے دونوں کا ملاپ ممکن نہیں ہوسکتا تاہم اگر نصوص شرعیہ کی روشنی میں غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اگرچہ جنات آتشی مخلوق ہیں اور انسان خاکی , جنات کی تخلیق آگ ہوا کے عنصر پر ہوئی لیکن تخلیق کے بعد وہ اپنے عنصر پر باقی نہیں رہے بلکہ کھانے پینے اور توالد وتناسل کے عمل کی وجہ سے دوسری حالت میں بدل گئے یعنی ہم مٹی اور پانی سےتخلیق کے باوجود اپنی اصل پر قائم نہیں ہیں گوشت پوست اورہڈیوں کا ملغوبہ ہیں مائع کی شکل میں اس گوشت پوست اور ہڈیوں کے ساتھ خون اور دیگر رطوبات بہی ہمارے اندر موجود ہیں بلکل اسی طرح آتشی مخلوق جنات بہی ہوگئے اپنے ابتدائی تخلیق کے بعد اپنے عنصر کی اصلیت پر باقی نہ رہے بلکہ ایک ایسی حالت میں ہوگئے جس میں وہ انسانوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے ساتھ کھانے پینے اور اپنی نسل کو بڑھانے کے عمل سے متصف ہوگئے جس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت صلاۃ میں شیطان کے لعاب دہن کی ٹہنڈھک کو محسوس کیا تہا.

[مسند احمد :11780اسناده حسن]

اس حدیث سے پتہ چلا کہ آگ سے پیدا ہونے والی مخلوق کے منہ میں تھوک کی نمی موجود تہی اگر وہ اپنے آتشی عنصرہی پر باقی رہتا اور مکمل آگ ہوتا تو اس میں کسی بہی قسم کی برودت یا تراوٹ محسوس نہ کی جاتی.


جن لگنے(مس)کی تعریف

عربی لغت میں جنوں کے انسان کو چمٹنے چھونے یا لگنے کو "مس"کہتے ہیں.
پھر بعد میں یہ لفظ "مس "جنون کے لئے بہی استعمال ہونے لگا کیونکہ جنون کی کیفیت بہی گویا اسی طرح ہوتی ہے جیسا کہ جن چمٹے ہوئے ہوں ،کہا جاتا ہے "به مس من جنون" کہ فلاں کو جنون زدگی ہے.
عام مس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ انسان کو جن اس کے جسم سے باہر یا اندر سے یا دونوں جانب سے ہی اذیت پہونچائے یہ( مس) مرگی سے زیادہ عمومیت کا معنی رکھتا ہے.

 [جناتی اور شیطانی چالوں کا توڑ:101 ]

 جن لگنے (مس) کی اقسام

جن لگنے کی چار قسمیں ہیں جو درج ذیل ہیں.

(1)کلی مس:اور وہ یوں ہوتا ہے کہ جن جسد انسانی کو کلی طور پر اپنے کنٹرول میں کرلیتا ہے اس شخص کے مانند کہ جسے اعصابی تشنج جکڑ لیتا ہے.

(2)جزوی مس: وہ یہ ہے کہ جن کا کسی ایک انسانی عضو کو پکڑ لینا مثلا بازو پاؤں یا زبان وغیرہ .

(3)دائمی مس: وہ یہ ہے کہ جن جسم انسانی میں طویل مدت تک ٹھرا رہے .

(4)مس طائف: گردش کی مانند چھونا یہ کیفیت چند لمحات سے زیادہ جاری نہیں رہتی جیسا کہ مرگی کی بیماری میں ابتدائی جھٹکے لگتے ہیں.

 [جناتی اور شیطانی چالوں کا توڑ.صفحہ:101]

 جن لگنے کے قرآنی دلائل

جن لگنے کا ثبوت قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جس سے انکار قطعا ممکن نہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ،

[سورة البقرة :275]

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے ".

 اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئےامام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (متوفى310ھ) فرماتے ہیں :
"من مات وهو يأكل الربا، بعث يوم القيامة متخبِّطًا، كالذي يتخبطه الشيطان من المس"

[جامع البيان عن تأويل آي القرآن:101/3]

"یعنی جو شخص مر جائے اس حال میں کہ وہ سود کھاتا ہو تو آخرت میں (اپنی قبروں سے) اس شخص کی طرح اٹھے گا جسے شیطان لگ کر خبطی بنا دے (یعنی شیطان اسے دنیا میں لگ کر اس کی عقل کو تباہ کردے)".
اور امام القرطبی رحمہ اللہ(متوفى671ھ)فرماتے ہیں : "فِي هَذِهِ الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى فَسَادِ إِنْكَارِ مَنْ أَنْكَرَ الصَّرْعَ مِنْ جِهَةِ الْجِنِّ، وَزَعَمَ أَنَّهُ مِنْ فِعْلِ الطَّبَائِعِ، وَأَنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْلُكُ فِي الْإِنْسَانِ وَلَا يَكُونُ مِنْهُ مَس"ٌّ.

[الجامع لاحكام القرآن :355/3]

"اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے نیز شیطان انسان کے اندرنہ داخل ہوسکتا ہے نہ لگ سکتا ہے."

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ(متوفى774ھ) فرماتے ہیں:
" لَا يَقُومُونَ مِنْ قُبُورِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الْمَصْرُوعُ حَالَ صَرَعِهِ وَتَخَبُّطَ الشَّيْطَانِ لَهُ؛ وَذَلِكَ أَنَّهُ يَقُومُ قِيَامًا مُنْكَرًا".

[تفسير القرآن العظيم:427/1]

"کہ آیت کریمہ "الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ..." کا مفہوم یہ ہے کہ سود خور قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ مریض کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان لگا ہو اور اسے خبطی بنا دیا ہو یعنی وہ عجیب وغریب حالت میں کھڑا ہوتا ہے".

امام آلوسی رحمہ اللہ(متوفى1270ھ)فرماتے ہیں:
إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ [سورة البقرة :275]أيْ إلّا قِيامًا كَقِيامِ المُتَخَبِّطِ المَصْرُوعِ في الدُّنْيا، والتَّخَبُّطُ تَفَعُّلٌ بِمَعْنى فَعْلٍ وأصْلُهُ ضَرْبٌ مُتَوالٍ عَلى أنْحاءٍ مُخْتَلِفَةٍٍ.

[روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني:79/3]

"کہ جولوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں جن زدہ شخص کھڑا ہوتا ہے لفظ "تخبط "تفعل کے وزن پر فعل یعنی خبط کے معنی میں ہے اور اس کی اصل مختلف انداز کی مسلسل ضرب ہے .
آگے فرماتے ہیں :{مِنَ المَسّ} أيِ الجُنُونِ، يُقالُ: مُسَّ الرَّجُلُ فَهو مَمْسُوسٌ إذا جُنَّ وأصْلُهُ اللَّمْسُ بِاليَد.

ِ[مصدر سابق]

اور اللہ رب العالمین کا فرمان "مِنَ الْمَس"ِّ کا مطلب جنون اور پاگل پن ہے کہا جاتا ہے: "مس الرجل فہو ممسوس" یعنی وہ پاگل ہوگیا اور مس کا اصل معنی ہاتھ سے چھونا ہے".

جن لگنے کے حدیثی دلائل

  جن لگنے اور چمٹنے کے سلسلے میں قرآن نے جس قدر صراحت کی ہے اس سے کہیں زیادہ احادیث نبویہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ حق اور سچائی پر مبنی ہے جنات انسان کے بدن میں داخل ہو سکتے ہیں اور انہیں چمٹ سکتے ہیں ہم یہاں چند صحیح حدیثیں ذکر کررہے ہیں جو اس مسئلے پر دلالت کرتی ہیں تاکہ مسئلہ کی مزید وضاحت ہوسکے .

(1)پہلی دلیل :حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

‏‏‏‏ لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ،‏‏‏‏ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏  ابْنُ أَبِي الْعَاصِ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏  مَا جَاءَ بِكَ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏  ذَاكَ الشَّيْطَانُ ادْنُهْ ،‏‏‏‏ فَدَنَوْتُ مِنْهُ،‏‏‏‏ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ،‏‏‏‏ وَتَفَلَ فِي فَمِي،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏  اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ ،‏‏‏‏ فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏  الْحَقْ بِعَمَلِكَ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ عُثْمَانُ:‏‏‏‏ فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ.

[ابن ماجہ :3548صحيح]

  "کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: کیا ابن ابی العاص ہو ؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا:  تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور  ( شیطان کو مخاطب کر کے )  فرمایا: «اخرج عدو الله»  اللہ کے دشمن! نکل جا ؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: اپنے کام پر جاؤ  عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب بھٹکا ہو"۔

(2)دوسری دلیل :حضرت خارجہ بن صلت التمیمی رضی اللہ عنہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ عِنْدَهُمْ رَجُلٌ مَجْنُونٌ مُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَهْلُهُ:‏‏‏‏ إِنَّا حُدِّثْنَا أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ تُدَاوِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَقَيْتُهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَرَأَ فَأَعْطَوْنِي مِائَةَ شَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ إِلَّا هَذَا  ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُسَدَّدٌ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:‏‏‏‏ هَلْ قُلْتَ غَيْرَ هَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْهَا فَلَعَمْرِي لَمَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ.

[سنن ابو داؤد 3896صحیح]

" کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، پھر لوٹ کر جب آپ کے پاس سے جانے لگے تو ایک قوم پر سے گزرے جن میں ایک شخص دیوانہ تھا زنجیر سے بندھا ہوا تھا تو اس کے گھر والے کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے یہ ساتھی  ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )  خیر و بھلائی لے کر آئے ہیں تو کیا آپ کے پاس کوئی چیز ہے جس سے آپ اس شخص کا علاج کریں؟ میں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تو وہ اچھا ہو گیا، تو ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں دیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  تم نے صرف یہی سورت پڑھی ہے؟ ۔  ( مسدد کی ایک دوسری روایت میں: «هل إلا هذا» کے بجائے: «هل قلت غير هذا» ہے یعنی کیا تو نے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں پڑھا؟ )  میں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  انہیں لے لو، قسم ہے میری عمر کی لوگ تو ناجائز جھاڑ پھونک کی روٹی کھاتے ہیں اور تم نے تو جائز جھاڑ پھونک پر کھایا ہے "۔

(3)تیسری دلیل :علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتلایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی سوچ کی ضرورت نہیں، یہ تو  ( میری بیوی )  صفیہ بنت حیی  ( رضی اللہ عنہا )  ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا، سبحان اللہ! یا رسول اللہ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا َ:‏‏‏‏ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنَ الْإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا".

[صحیح بخاری :2035]

"کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے".

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ جن انسانوں کو چمٹ سکتے ہیں انہیں ابتداء ہی یہ صلاحیت عطا کی گئ ہے.

جنات لگنے (مس) کے عقلی دلائل

جنات کا انسان کو مس کرنا،چمٹنا اور اس کے بدن میں داخل ہوجانا نص شرعی کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع پر ہوئے لوگوں کے متعدد مشاہدات وتجربات سے بہی ثابت ہیں اور انہیں عقلی اعتبار سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ عقلی اعتبار سے ممکن ہے ہم یہاں چند اہل علم کے اقوال نقل کررہے ہیں جو عقلی اعتبار سے جنات کے چمٹنے اور مس کرنے پر دلالت کرتے ہیں.

شیخ محمد حامد لکھتے ہیں کہ"جب جنات لطیف اجسام ہیں تو انسان کے جسم میں ان کا جاری وساری ہونا عقلا وشرعا محال نہیں کیونکہ باریک چیز موٹی چیز کے اندر سرایت کرجاتی ہے مثلا ہوا ہمارے جسموں میں داخل ہو جاتی ہے آگ انگارے میں گھس جاتی اور بجلی تار کے اندر چلی جاتی ہے.

[ردود علی اباطیل وتمحيصات لحقائق دينية 135/2]

مزید کہتے ہیں :کہ اس بارے میں اہل حق کا موقف ان نصوص کو تسلیم کرلینا ہے جو انسان کے جسم میں جنات کے داخل ہونے کی خبر دیتے ہیں یہ نصوص اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو چھوڑ کر منکرین کے انکار اور بکواس پر توجہ نہیں دی جاسکتی انسان کے جسم میں جنات کے داخل ہونے کے واقعات بہی اتنے زیادہ اور مشاہدہ میں ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے لہذا اس حقیقت کا منکر واقعات اور مشاہدات کا منکر اور اپنےقول کی بذات خود تردید کرنے والا ہے .

[ردود علی اباطیل وتمحيصات لحقائق دينية 135/2]

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728ھ) فرماتے ہیں :
وجود الجن ثابت بالقرآن، والسنة، واتفاق سلف الأمة، وكذلك دخول الجن في بدن الإنسان ثابت باتفاق أئمة أهل السنة، وهو أمر مشهور، محسوس لمن تدبره، يدخل في المصروع، ويتكلم بكلام لا يعرفه، بل ولا يدري به،

[مختصر الفتاوى المصرية لابن تيمية: 584]

"کہ انسان کے جسم میں جنات کا داخل ہوجانا باتفاق اہل سنت ثابت ہے اور یہ بات غور وفکر کرنے والے کے مشاہدہ میں ہے جن مریض کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور ایسی بات بولتا ہے جسے مریض نہیں جانتا بلکہ اسے اس کے بولنے کا بہی پتہ نہیں ہوتا".

وہ حالات جن میں جنات انسانوں سے چمٹ سکتے ہیں

غورو فکر اور تحقیق وتفتیش کے بعد اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی کچھ خاص حالتیں ہوتی ہیں جن میں جنات انسانوں کے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں اور ان سے چمٹ سکتے ہیں وہ حالات درج ذیل ہیں.
(1)سخت غصہ کی حالت
(2)شدید خوف کی حالت
(3)انتہائی خوشی کی حالت
(4)شدید غفلت کی حالت
(5)شہوت پرستی میں مگن حالت میں
(6)جنات کو جانے یا انجانے میں ستانے کی وجہ سےغضبناک ہوکر بہی جنات انسان میں داخل ہو جاتے ہیں.

 علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ [متوفى 751ھ]فرماتے ہیں:کہ ان شریر جنات کا زیادہ تر تسلط ان لوگوں پر ہوتا ہے جن میں دین سے آشنائی بہت کم ہوتی ہے اور ان کی زبانیں اور دل ذکر الہی اور اللہ رب العالمین کی پناہ میں آنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اذکار ووظائف اور متعلقہ تحفظات سے غیر آباد ہیں تو گویا یہ خبیث جنات غیر مسلح آدمی پر حملہ آور ہوتے ہیں یعنی جن اوقات میں انسان ان تحفظات الہیہ سے بلکل عاری ہوتا ہے تو جنات اس پر مسلط ہوجاتے ہیں.

[زاد المعاد فی ھدی خیر العباد :69/4]

گویا انسان اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے جنات کو خود موقع فراہم کرتا ہے ورنہ عام حالات میں جنات کو انسان پر مسلط ہونے کی طاقت ہوتی ہے اور نہ اجازت اگر انسان ہمہ وقت اپنی زبان ودل کو ذکر الہی سے معمور رکھے تو جنات انسان پر قطعا مسلط نہیں ہوسکتے اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ  اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ  لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ  وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ  اَجۡمَعِیۡنَ اِلَّا عِبَادَکَ  مِنۡہُمُ  الۡمُخۡلَصِیۡنَ.

[سورة الحجر :39_40]

"( شیطان نے )  کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کرلئے گئے ہیں"۔ 

جنات سے پوچھے جانے والے سوالات

جب جن مریض سے چمٹ کر بولنے لگے تو اس سے درج ذیل سوالات کرنا چاہئے.
(1)تمہارا نام کیا ہے ؟
(1)تمہارا دین کیا ہے ؟
اس شخص کے اندر تم کیوں داخل ہوئے ؟
اس شخص کے اندر تمہارے علاوہ کوئی اور بہی ہے ؟
اگر ہے تو ان کی تعداد کتنی ہے ؟
اور ان سب کا دین کیا ہے ؟

جنات سے گفتگو کا طریقہ کار

حالات وظروف کے اعتبار سے ہر دم کرنے والا اپنے مخصوص انداز میں گفتگو کا آغاز کرے البتہ جنات کے کافر یا مسلم ہونے کی حیثیت سے انداز گفتگو اور سوالات کی نوعیت میں فرق ہوسکتا ہے ہم یہاں جنات سے گفتگو کے متعلق چند طریقوں کا تذکره کررہے ہیں جسے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی رہنمائی میں علماء کی ایک جماعت نے تیار کیا ہے .

اگر جن مسلمان ہو تو اسے اللہ تعالی کا خوف دلایا جائے اور اسے کہا جائے کہ یہ جو تو اس مریض کو چمٹ گیا ہے جائز نہیں بلکہ یہ ظلم ہے اور ظلم بروز قیامت تاریکی کا سبب ہوگا.

اگر وہ کہے کہ میں اس سبب سے اسے چمٹا ہوں مثلا فلاں زیادتی کا بدلہ یا انتقام لیتے ہوئے کہ اس انسان نے مجھے اذیت دی تہی تو اس کے جواب میں اسے کہا جائے کہ اسے کیا معلوم تہا کہ تمہیں تکلیف پہونچے گی نیز جس سے بغیر قصد وارادہ کے تکلیف پہونچے وہ سزا کا مستحق نہیں ہے.

اور اگر مریض نے وہ کام جس پر جن اعتراض کررہا ہے اپنے گھر میں اور اپنی ملکیت میں کیا ہو تو جنوں کو سمجھایا جائے کہ گھر اسی کا ہے اس کی ملکیت میں ہے اور اس میں وہ ہر جائز تصرف کر سکتا ہے.

اگر چمٹنے والا جن کہے کہ میں عشق ومحبت کی وجہ سے اس کے ساتھ چمٹا ہوں تو اسے سمجھایا جائے کہ یہ حرام اور بے حیائی کا کام ہے جو جائز نہیں.

اور اگر وہ بتائے کہ میں اسے ویسے ہی دل لگی کرتے ہوئے چمٹ گیا ہوں تو اسے سمجھایا جائے کہ کسی کو خواہ مخواہ ستانا جائز نہیں اس لئے اس سے نکل جاؤ .

اور اگر جنات کے چمٹنے کا سبب جادو ہو تو انہیں بتایا جائے کہ یہ کفر ہے اور یہ کوئی اچھا کام نہیں اور ساتھ ہی اس سے جادو کی جگہ پوچھا جائے تاکہ اس کا ازالہ کیا جاسکے بسا اوقات وہ جن خود ہی جادو کی جگہ بتا دیتے ہیں.

اور اگر وہ جن کافر ہو تو اسے بغیر مجبور کئے ہوئے اسلام کی دعوت دی جائے.

اگر وہ اسلام قبول کرلے تو اسے دین کی ضروری باتیں بتا دی جائیں اور شہادتین کی تلقین کی جائے.

اور اگر وہ کفر پر اصرار اور اسلام قبول کرنے سے انکار کردے تو پھر اسے نکلنے کو کہا جائے اگر انکار کرے تو اس پر بذریعہ دم وقرات سختی کی جائے.

[جناتی اور شیطانی چالوں کا توڑ اردو ترجمہ "فتح الحق المبين في علاج الصرع والسحر والعين":210_212]

شرعی دم کے شرائط

شرعی دم کے پانچ شرائط ہیں اگر یہ پائے جائیں تو دم کرنا جائز ہے.

1 - أن يكون بكلام الله تعالى وبأسمائه وصفاته.
"دم اللہ تعالی کے کلام اس کے نام اور صفات کے ذریعہ کیا جائے."

 2 – أن يكون بلسان عربي وبما يعرف معناه.
"دم عربی زبان میں ہو یا ایسی زبان میں ہو جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو."

 3 – أن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بتقدير الله تعالى.
"یہ عقیدہ ہو کہ دم بذات خود تاثیر نہیں رکھتا اس میں اثر من جانب اللہ پیدا ہوتا ہے"

[تیسیر العزیز الحمید شرح کتاب التوحید :167]

مذکورہ بالا تینوں شروط کے سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قد أجمع العلماء على جواز الرقى عند اجتماع هذه الشروط .

[فتح الباري – 10 / 206 ]

"کہ جس دم میں یہ تینوں شرائط پائے جائیں اس کے جواز پر اہل علم کا اجماع ہے".

تاہم سنت صحیحہ کی روشنی میں دو اور شروط کا اہل علم نے اضافہ ہے .

 (4)دم میں شرکیہ الفاظ کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہو.

[صحیح مسلم :2200) 

(5)وہ دم حرام کیفیت پر نہ ہو اور جان بوجھ کر حالت جنابت میں نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی مقبرہ اور حمام میں بیٹھ کر دم کیا جائے.
(یہ آخری شرط شریعت کے عمومی دلائل کی روشنی میں لگائی گئی ہے)

شرعی دم کا طریقہ

دم کرنے والے کے لئے بہتر ہے کہ وہ اللہ تعالی سے تعلق والا ہو اس کی نافرمانیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا ہو کیونکہ بندے کا جس قدر اپنے رب سے تعلق ہوگا اسی قدر اللہ تعالی اپنے دشمن (شیطان)کے دل میں رعب پیدا کرے گا اس لئے معالج کو چاہئے کہ وہ مریض پر دم کرنے سے پہلے تقوی اور اپنے رب کی قربت میں مضبوطی پیدا کرے اس کے اندر نفسیاتی استعداد ہو قوت ارادی میں مضبوطی ہو باکردار ہو اور دم کرنے سے پہلے مریض کے کان میں آذان کے کلمات دھرائے کیونکہ اس سے شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے بھاگتا ہے بعد ازاں دم کرنے والا مریض کے سر پر ہاتھ رکھے اور درج ذیل آیات ودعائیں پڑھے یہ وہ آیات ہیں جو شیطان کے لئےتکلیف واذیت کا سبب ہیں اس لئے اہل علم نے درج ذیل آیات وادعیہ ماثورہ کو "رقیہ شرعیہ" کے لئے یکجا کیا ہے.

 سورۃ الفاتحہ( کامل) سورۃ البقرۃ( آیت: 1تا 5 نیز 255,284,286),آل عمران( :1تا 10,)الاعراف(:53تا 57)الاسراء(:45 تا 51)یونس(:79تا 82)طہ(:65تا 69)المؤمنون(:115تا 118)الکافرون,اخلاص اور معوذتین بعد اذاں درج ذیل دعائیں پڑھے.

اللهمَّ ربَّ الناسِ أَذْهِبْ الباسَ ، اشفه وأنتَ الشَّافي ، لا شفاءَ إلا شفَاؤُكَ ، شفاءً لا يغادِرُ سَقَمًا.
[ صحيح البخاری:5743]

أَعوذُ بكلِماتِ اللهِ التامَّاتِ ، الَّتي لا يُجاوِزُهُنَّ بَرٌّ ولا فاجرٌ ، مِن شرِّ ما خلقَ ، وذرأَ ، وبرأَ ، و مِن شرِّ ما ينزِلُ مِن السَّماءِ و مِن شرِّ ما يعرُجُ فيها و مِن شرِّ ما ذرأَ في الأرضِ وبرأَ ومِن شرِّ ما يَخرجُ مِنها ، ومِن شرِّ فِتَنِ اللَّيلِ والنَّهارِ ، ومِن شرِّ كلِّ طارقٍ يطرُقُ ، إلَّا طارقًا يطرقُ بِخَيرٍ ، يا رَحمنُ ! .
[مسند أحمد: 15499وصححه الألباني في صحيح الجامع: 74]

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.
[صحيح مسلم :2709]

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ ".
[سنن ابو داؤد :3893حسن]

بسمِ اللهِ الذي لا يَضُرُّ مع اسمه شيءٌ في الأرضِ و لا في السماءِ ، و هو السميعُ العليمُ.

[سنن الترمذي :3388وصححه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب :655]
   
أعوذُ بكلماتِ اللهِ التامةِ ، من كلِّ شيطانٍ وهامَّةٍ ، ومن كلِّ عينٍ لامَّةٍ.

[صحيح البخاري :3371 ]

   مذکورہ بالا دعاؤں کے پڑھنے کے علاوہ دیگر خالی اوقات میں قرآنی آیات اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل "رقیہ شرعیہ" جسے اہل علم کی اجازت سے آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں مرتب کیا گیاہےجسے انٹر نیٹ سےحاصل کرکے موبائل فون یا ٹیپ وغیرہ کے ذریعہ گھر میں لگاکر بغور سناجاسکتا ہے جو کہ شیطان کے لئے اذیت کا باعث ہوگا ان شاء اللہ.

جن زدہ مریض کو مارنے کا مسئلہ

رہی بات جن زدہ شخص کو مارنے کی تو معالج کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ مریض کو کب مارنا ہے کہاں مارنا ہے اور کتنا مارنا ہے اور مارنے کی ضرورت ہے یا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جن زدہ بچے کو دم کرتے ہوئے جن کو ڈانٹا اور فرمایا :اخرج عدو الله انا رسول الله.

 [البداية والنهاية: 146/6طريقه جيد]

"کہ اے اللہ کے دشمن باہر نکل میں اللہ کا رسول ہوں.

علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (متوفی 751ھ)فرماتے ہیں: شاهدت ‏شيخنا يرسل إلى المصروع من ‏يخاطب الروح التي فيه، ويقول قال ‏لك الشيخ اخرجي، فإن هذا لا يحل ‏لك، فيفيق المصروع، وربما كانت ‏الروح ماردة فيخرجها بالضرب، ‏فيفيق المصروع، ولا يحس بألم. ‏وقد شاهدنا نحن وغيرنا منه ذلك ‏مرارا.

[زاد المعاد في هدي خير العباد:4/ 66]

"ہم نے اپنے شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ وہ جن زدہ کی جانب کوئی آدمی بہیجتےاور وہ اس جن سے مخاطب ہوتا جو اس شخص میں ہوتا تھا اور کہتا شیخ نے کہا ہے کہ تو "نکل جا "یہ تیرے لئے حلال نہیں ہے کہ انسانوں میں داخل ہو تا پھرے تو جن زدہ شخص ہوش وہواس بحال کرلیتا اور بعض اوقات شیخ بنفس نفیس جن کو مخاطب کرتے اور کبہی ایسا بہی ہوا ہے کہ جن سرکش ہوتا تو شیخ اسے مار کر نکالتے تہے تو جن زدہ ہوش میں آجاتا اور مار کی ذرہ برابر تکلیف محسوس نہ کرتا تہا اس کا ہم نے اور ہمارے علاوہ لوگوں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے" .

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ[متوفى:1421ھ]فرماتے ہیں :سحر زدہ کو مار کر جن بھگانے والی بات ایسی ہے کہ ہمارے سابقہ علمائے کرام سے سرزد ہوتی رہی ہے ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بہی شامل ہیں کہ آپ جن کو مخاطب کرتے اس کا گلا گھونٹ دیتے اسے مارتے یہاں تک کہ وہ نکل جاتا لیکن ان معاملات میں مبالغہ سے کام لینا جو کہ آج کل ہم بعض معالجوں سے سن رہے ہیں اس کی اجازت کسی طور سے نہیں دی جاسکتی.

[مجلة الدعوة عدد: 1456بحوالہ جناتی اور شیطانی چالوں کاتوڑ:209 ]

خلاصہ کلام یہ کہ جنات ایک حقیقی مخلوق ہیں جن کا ذکر کتاب وسنت میں متعدد بار ہوا یے لہذا ہمیں ان کے وجود پر ایمان رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا انکار کتاب وسنت میں موجود ایک غیبی امر کا انکار ہےاور اللہ رب العالمین کی جناب میں ان کے شر سے پناہ طلب کرنا چاہئے کیونکہ ان کے شر سے اللہ کی پناہ  طلب کرنا اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہے. اللهم ارنا الحق حقا وارنا الباطل باطلاً  آمین. 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

الوداعی کلمات جامعہ اسلامیہ سنابل jamia Islamia Sanabil

محبتوں کا دریا سموئے ہوئے جدا ہورہے ہیں گلشن علم وفن سے ملاقات کے دن ختم ہوئے جدائی کے دن قریب ہوئے آج وہ  لمحہ آچکا ہے  ہے جس میں خوشی کا پہلو کم اور غمی کا پہلو زیادہ ہے جامعہ کے تئیں دل میں محبت کے جو جذبات موجزن ہیں ان کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں اور نہ میرے پاس وہ پیرایہ بیان ہے جس کے ذریعہ میں اپنے غم جدائی کی تفصیل کرسکوں اور مجھ جیسے ناتواں کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جملوں اور الفاظ کے ذریعہ ان جذبہائے محبت کی ترجمانی کرسکے جو دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں کیونکہ اب اس دیار محبوب کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا ہے جس کی گود میں ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کے بیشتر ایام گزارے ہیں اور مشکل ترین وصبر آزما حالات میں بہی ہم نے اسے اپنا جائے پناہ بنایا ہےاے سنابل تیری فضا کتنی راحت بخش تھی جس سے اب ہم اشک چھلکاتے وداع ہو رہے ہیں یقیناً اس وقت کو ہم کیسے بھلا سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین سنابل میں قدم رکھا تہا اور اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو دل میں بسائے ہوئے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا اور یہاں کے چشم صافی سے جام کشید کرنے کے لئے پختہ عزائم لے کر

صدارتی کلمات

  *صدارتی کلمات* !الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد قابل قدر علماء کرام ،طلبہ عظام وجملہ مشارکین وگروپ   منتظمین *السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركته*  آج بتاریخ ١۰/ذی الحجہ ١۴۴١ھ مطابق 11/اگست 2019ءبروز اتوار بعد صلاۃ عشاء ایک علمی وادبی گروپ بنام "فکر ونظر "میں ایک علمی محاضرے کا انعقاد عمل میں آیا جس کا عنوان تھا "پیغام عید الاضحی _ احکام ومسائل" میں نے اپنی گفتگو کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے  *پہلا حصہ عنوان سے متعلق*   چونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے دو عید مشروع رکھا ہے عید الفطر اور عید الاضحی مزید برآں عید الاضحی کے ساتھ ایک اور عظیم الشان عبادت یعنی قربانی کو جوڑ دیا ہے جو کہ حقیقتاً شعائر اسلام میں سے ایک شعار اور عبادت ہے لہذا اس عبادت کو صحیح انداز میں ادا کرنے کے لئے ایک مسلمان پر اس سے متعلق اس قدر جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ اس عظیم الشان عبادت کی ادائیگی سنت کے مطابق انجام دے سکیں یہی وجہ ہے کہ اس طریقے کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ حسب

Qutub Minar قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ

قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ  (اردو خاندہ کے لئے نظر التفات)   از قلم :معاذ دانش   قوت الاسلام مسجد قوت الاسلام مسجد (دہلی)کے صحن کا ایک منظر  سلطان محمد شہاب الدین کے مارے جانے کے بعد سلطان قطب الدین ایبک نے جون ١۲۰٦ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا، یہ عالموں کا قدر دان اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے موسوم ہندوستان کا وہ پہلا ترکی النسل مسلم بادشاہ ہے جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو "دہلی سلطنت" کے نام سے مشہور ہوئی، اورنومبر ١۲١۰ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے"ایبک روڈ"میں دفن ہوا.اسی نے ١۹۹۰ء میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی البتہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں اس مسجد کا صحن مستطیل نما تھا ، اس مسجد کی لمبائی ١٤١ اور چوڑائی ١۰٥ فٹ تھی، صحن کے چاروں طرف دالان بنائے گئے تہے، مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے آج بہی موجود ہیں ،ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی،چونکہ التمشؔ کے دور میں سنگ تراشو

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل از قلم :معاذ دانش حمید اللہ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے عربی زبان میں اسے "الأضحية" کہتے ہیں۔  الاضحيۃ (قربانی)کی تعریف   ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام (اونٹ ،گائے ،بکری ،بھیڑ) میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی کی مشروعیت   اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36] "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے"۔      اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ[صحیح بخاری :5545] "کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا"۔  اور متعدد اہل علم نے قربانی کی مشروعت پر اجماع نقل کیا ہے [المغني لابن قدامة المقدسي :8/617] قربانی کا

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر (عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی) از قلم: معاذ دانش حمید اللہ ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے  کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کرونا وائرس کے بارے میں

ادیان ومذاہب

ادیان ومذاہب از قلم :معاذ دانش حمید اللہ  (یہ مضمون ادیان ومذاہب کے تعلق سے ایک عربی مذکرے کا ترجمہ ہے ) الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين امابعد!  بلا شبہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو ایسے وقت میں بہیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند ہوچکا تہا اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی معاملات میں فیصلہ کردیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ  اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ  الَّذِیۡ  لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ  اِلَی اللّٰہِ  تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ. [سورۃ الشوری:52_53] " یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔  خبردار رہو ،  سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں".  پہر لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے.  (1)مومن(2)کافر رہے مومن تو ان کی ایک ہی جماعت ہے جو سیدھے راستے پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے نور سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ان کا راستہ روشن

سامنے رکھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

سامنے رکہا تہا میرےاور وہ میرا نہ تہا  از قلم :معاذ دانش حمید اللہ   ۲۸_۲۹ جولائی سنہ ۲۰١۸ بروز ہفتہ واتوار مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام اٹھارہواں کل ہند مسابقہ حفظ وتجوید وتفسیر قرآن کریم صبح ١۰:۰۰ بجے اہل حدیث کمپلیکس میں شروع ہوا چھ زمروں پر مشتمل اس پروگرام میں قیام وطعام کا معقول انتظام کیا گیا تہا ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ کے وفود پہونچ چکے تہے لوگوں میں باہمی مسابقت کا عظیم جزبہ دکھائی دے رہا تہا سابقہ روایات کے مطابق جامعہ اسلامیہ سنابل سے بہی طلبہ کا ایک جم غفیر کمپلیکس کے احاطے میں قدم رکھ چکا تہا ہر طرف جوش تہا امنگ تہا خوشیوں کی لہر تہی یہ ساری چیزیں اپنے آپ میں ایک ایک نادر ونایاب عکس پیش کر رہی تہیں امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی ودیگر اراکین مجلس نیز باہر سے تشریف لائے بعض اہل علم کے تاثراتی کلمات کے بعد مسابقے کا باقاعدہ آغاز ہوا لیکن ابہی چند ساعت نہ گزرے ہوں گے کہ ایک اعلان آیا جس میں مقامی افراد کو مسابقے کے بعد بلا ظہرانہ گھر تشریف لے جانے کی تلقین کی گئی تہی اس اعلان نے مسابقے کے دوران ہی ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا مشارکین مسابقہ کی گو
زندگی کی پہلی سیلری  یوں تو ہمارے دوستوں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں  نوع بنوع علمی وفنی مہارات پائی جاتی ہیں انہیں میں سے ایک ہمارے بہت قریی اور عظیم الشان صلاحیتوں اور مہارتوں کے مالک عبد الرزاق العماد کی مایہ ناز شخصیت ہے جن کا حلیہ مبارک کچھ یوں ہے میانہ قد ،گول چہرہ ،متناسب جسم ،ٹھوڑی پر ابھرتے ہوئے داڑھی کے چند بال ،سر پر گول ٹوپی ،سفید فٹنگ کرتا پائجامہ میں ملبوس سامنے کی جیب میں لگا ایک عمدہ قلم اور بسا اوقات کان میں خوشبو سے معطر روئی کا فوا لگائے ہوئے تیز قدموں سے چلنا آپ کی صفت تہی تعلیمی ایام میں آپ کا معمول تہا کہ جب بہی کلاس میں داخل ہوتے مسکرا کر سلام کرتے اور سامنے کی سیٹ پر جلوہ افروز ہوجاتے لوگوں سے کافی میل محبت کے ساتھ رہتے لوگوں سے ہنسی مذاق کا ایک خاص اسلوب تہا جو آپ کو دوسروں سے ممتاز رکھتا تہا کلاس میں عبد العليم بہائی آپ کے بغل میں بیٹھا کرتے تہے وہ بہی خاصے  معصوم لگتے تہے شاید یہ انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہو چونکہ ہماری کلاس کی خوبی یہ تہی کہ جب جس نے چاہا ہاتھا پائی کرلیا اور لمحوں میں دوستی کا ہاتھ بہی بڑھا دیا اور اس سے بہی عجیب خوبی یہ تہی کہ سال ک

ماہ شعبان،احکام و مسائل

ماہ شعبان ،احکام و مسائل ا ز قلم:معاذدانش حمیداللہ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ شعبان کی وجہ تسمیہ شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔ اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث می