ادیان ومذاہب
از قلم :معاذ دانش حمید اللہ
(یہ مضمون ادیان ومذاہب کے تعلق سے ایک عربی مذکرے کا ترجمہ ہے )
الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين امابعد!
بلا شبہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو ایسے وقت میں بہیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند ہوچکا تہا اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی معاملات میں فیصلہ کردیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ.
[سورۃ الشوری:52_53]
" یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔ خبردار رہو ، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں".
پہر لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے.
(1)مومن(2)کافر
رہے مومن تو ان کی ایک ہی جماعت ہے جو سیدھے راستے پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے نور سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ان کا راستہ روشنی سے پر ہے یہاں تک کہ وہ لوگ حجت اور رضائے الہی کی انتہا کو پہونچ جائیں اور جنت میں داخل ہو جائیں.
رہے کفار تو وہ مختلف جماعتوں اور ٹولیوں میں تقسم ہوگئے جن کا نقطہ اتحاد کفر اور نقطہ افتراق خواہشات اور شہوت پرستی پر مشتمل تہا.
ان میں بعض ملحد ہیں جو اپنے رب سے اندھے پن کا اظہار کرتے ہیں اور شریعت الہی کی دی ہوئی رہنمائی کو ترک کرکے دنیا میں منہمک ہوچکے ہیں .
ان میں سے بعض بت پرست ہیں جو اپنے رب سے بھٹک گئے اور ایسے (معبودان باطلہ)کی عبادت شروع کردی جو انہیں بے نیاز نہیں کرسکتے نہ ہی بھوک سے آسودہ کرسکتے ہیں.
ان میں بعض یہودی ہیں جنہیں اللہ نے علم کے باوجود گمراہ گردیا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ان کی نگاہوں پر پردہ ڈال دیا حسد وتکبر نے انہیں اندھا اور شیطان نے خبطی بنا دیا یہاں تک کہ انہوں نے حق سے اعراض کیا اور سرکشی اختیار کی ساتھ ہی بدترین اخلاقی رویہ اپناتے ہوئے اپنے رب سے بحث ومباحثہ کیا جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت وغضب کا مستحق ٹھرےاللہ رب العالمین ارشاد ہے :وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ.
[سورۃ آل عمران :117]
" اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا درحقیقت یہ خود اپنےاوپر ظلم کر رہے ہیں".
ان میں سے بعض نصرانی ہیں جنہوں نے صلیب کی عبادت کی،خواہشات کو اپنا معبود بنایا مجسمے کو سچا دین اور شرک کو توحید شمار کیا اللہ کے بارے میں قدیم کفار جیسی بڑی باتیں کہہ ڈالیں جس سے وہ خود گمراہ ہوئے دوسروں کو بہی گمراہ کیا شیطان نے ان کے برے کاموں کو مزین کرکے پیش کیا جسے انہوں نے اچھا سمجھ کر اپنا لیا اللہ تعالی نے فرمایا: يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ.
[سورة النحل :93]
"وہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا تا ہے جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے".اور فرمایا :وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ.[سورۃ فصلت:64 ]
"اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں".
مسلمان حق کی دعوت دیتا ہے اسے ہلاک ہونے والوں کی کثرت اور چلنے والوں کی قلت نقصان نہیں پہونچا سکتی جب وہ اللہ تعالی کے نور اور اور اس کی ہدایت کے مطابق چلتا ہے مزید براں مسلمان نرم مزاج پاکیزہ اور ہوشیار ناصح ہوتا ہے لوگوں کی نجات کے لئے نصیحت کرتا ہے اور شفاء کی امید سے مریض کو دوا بتاتا ہے (اور یہ بات متحقق ہے) کہ جو بیماری سے نا آشنا ہو وہ دوا نہیں بتا سکتا.
اس لئے مسلمان داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ادیان ومذاہب کے تعلق سے کچھ نہ کچھ جانکاری ضرور رکھے کیونکہ اس کے بے شمار فوائد ہیں.
(1)جب داعی دیگر ادیان باطلہ میں پائے جانے والے بگاڑ وانحرافات کی جانکاری حاصل کرلے گا تو وه ان خرابیوں کے مقابلے میں اسلام میں پائی جانے والی خوبیوں کو(لوگوں کے سامنے) بیان کرے گا تو اس کے لئے دعوت میں آسانی پیدا ہوگی .
(2)نصرانیوں نے مسلمانوں کے بیشتر علاقوں میں جنگی معرکہ آرائیاں کیں جس کے نتیجے میں وہ لوگ مسلم علاقوں میں زہر پہیلاتے رہے اور انہیں نصرانی بنانے کے لئے جاہل اور سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا شکار بناتے رہے اس لئے داعیان اسلام کو نصرانیوں کے دین کی معرفت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ ان میں پائے جانے والے انحرافات ودعوتی بگاڑ کو عام مسلمانوں کے سامنے واضح کیا جاسکے.
(3)اسلام کے علاوہ دیگر ادیان ومذاہب پر( دور اندیشی پر مبنی نگاہ اور )گہری نظر رکھنا، مسلمانوں کے یقین میں اضافہ کرتا ہے، اس سے اسلام کی امتیازی حیثیت اور سربلندی ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام ابہی تک توحید خالص پر قائم ودائم ہے اور اس کے مصادر (کتاب وسنت کی شکل میں) ان تمام تر انحرافات سے محفوظ ہیں جس میں دیگر ادیان کے مصادر واقع ہوچکے ہیں ،
(4)ادیان باطلہ کے پروکاروں نے اپنی کتابوں میں تحریف سے کام لیا ان انحرافات سے واقفیت اختیار کرنے سے اللہ رب العالمین کے اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے جس میں ان کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کرڈالی اور انہیں اصلی شکل میں باقی نہیں رکھا مزید برآں اللہ کی دی گئی خبر پر ایمان لانے سے ایمان مجمل کے بعد ایمان مفصل حاصل ہوتا ہے.
(5)داعی کو ان ادیان کی تاریخ وحقائق کی معرفت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کی کتابوں میں پائے جانے والے انحرافات کی جگہیں اور اس کے اسباب لوگوں کے سامنے واضح کرسکیں تاکہ ان اسباب سے اجتناب کیا جا سکے.
(6)مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کا خاتمہ کرنے کرنے والے انحرافی رجحانات اور گمراہ کن ادیان ومذاہب کے خطرات کو دیکھنے سے اس علم (علم الادیان) کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے .
لہذا داعیان اسلام کو علم وبصیرت کے ساتھ مسلمانوں اور پوری انسانیت کو گمراہ کرنے والے افکار ورجحانات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے دین کے تئیں خاص اہتمام کرنا چاہئے تاکہ وہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے اور گمراہی سے بچانے والے بہتر داعی بن سکیں.
(بلاشبہ) حق وباطل کا ٹکراؤ ہمیشہ سے اللہ کی سنت رہی ہے اور حق کی مدد وہی کرسکتا ہے جو خیر وشر کی معرفت رکھتا ہے خیر وبھلائی پر عمل کرتا اور شر سے اجتناب کرتا ہے خیر کی دعوت دیتا اور شر سے ڈراتا ہے.
اس زمانے میں ہر طرف سے تمام امتیں مسلمانوں کے مد مقابل نبرد آزما ہیں دشمنان اسلام ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مختلف بدعات وخرافات فسادات و فکری انقلاب کے ذریعے معرکہ آرائییوں میں مصروف عمل ہیں اور ایسا اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین کے سلسلے میں تساہل برتنا شروع کردیا اور ان کی اخلاقی سر بلندی شریعت پر پابندی اور عقیدے میں مضبوطی باقی نہیں رہی .
اور (دوبارہ) مسلمانوں کو عزت ونصرت قوت واقتدار اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ اپنی دین کی معرفت حاصل کریں اس پر مضبوطی سے قائم ہوجائیں ساتھ ہی اپنے دشمن کی معرفت حاصل کریں ان کی جنگی چالوں اور طریقہ ہائے جنگ کی صحیح معرفت حاصل کرلیں.
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ایمان وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور اعمال اس کی تصدیق کردیں سو جس نے کوئی بات کہی اور اس پر عمل کیا تو وہ قابل قبول ہوگا اور جس نے کوئی بات کہی اور اس پر عمل نہیں کیا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا اور سب سے خطرناک عمل جو دشمنان اسلام نے سر انجام دیا وہ یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان ادیان باطلہ( کی تعلیمات) اور (غلط) افکار ورجحانات کو عام کیا.
یہ وہ (حقائق) ہیں جنہیں ہر مسلمان کو جاننا ضروری ہے چہ جائیکہ طالب علم .
یہیں سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان باطل ادیان ومذاہب کا دراسہ کس قدر ضروری ہے اور لوگوں کے سامنے مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت پر آنے والے خطرات کا واضح کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے.
مدخل لدراسة الأديان والمذاهب المعاصرة
ادیان ومذاہب کی لغوی و اصطلاحی تعریف
ادیان کی لغوی تعریف
ادیان جمع ہے دین کی جو فعل ثلاثی "دان"سے مشتق ہے اور کبہی بذات خود متعدی ہوتا ہے اور کبہی" لام "کے ذریعہ تو کبہی "با"کے ذریعہ متعدی ہوتا ہے اور حرف جر کے اختلاف سے معنی بہی مختلف ہوتا ہے.
جب بذات خود متعدی ہوتا ہے تو "دانه"ہوجاتا ہے.
بمعنی "مالک ہونا سیاسی رہنمائی کرنا تابع بنانا حساب لینا".
اورجب لام کے ذریعہ متعدی ہو "دان له "ہوجاتا ہے.
بمعنی " کسی کے سامنے اظہار عجز کرنا،فرمانبرداری کرنا".
اور جب "با" کے ذریعہ متعدی ہو تو "دان به"ہوجاتا ہے.
بمعنی "کسی دین اور مذہب کو اپنانا عادت بنانا کسی کو اپنانا اور اس کا عقیدہ رکھنا ".
دین کی اصطلاحی تعریف
دین کی تعریف کے سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے بایں طور پر کہ ہر انسان اپنے مسلک کے اعتبار سے تعریف کرتا ہے اور جس نے یہ خیال کیا کہ یہ دین کی اہم خصوصیات میں سے ہے تو ان میں بعض لوگوں نے دین کی تعریف اس طور سے کی کہ:
"الشرع الإلهي المتلقى عن طريق الوحي "
"وہ قانون الہی جو علی سبیل الوحی حاصل کی گئی ہو".
یہ تعریف اپنے اندر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیتی ہے تاہم یہ تعریف قابل غور ہے کیونکہ اس تعریف کی روشنی میں دین محض آسمانی دین تک ہی مقید رہ گیا جبکہ درست اور صحیح بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے لوگ اختیار کریں اس کی عبادت کریں تو اسے دین سے موسوم کیا جائے گا خواہ وہ( دین) حق ہو یا باطل ، اللہ عزوجل کے اس قول سے استدلال کرتے ہوئے جس میں ہےوَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡن[سورۃ آل عمران :85]
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا" ۔ اور جیسے اللہ تعالی کا قول :لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ[سورۃ الکافرون:6]
"تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے "۔
پس مشرکین عرب جس بت پرستی پر قائم تہے اللہ نے اس کا نام دین رکھا.
اور اصطلاح عام میں دین کہا جاتا ہے "جس کا انسان عقیدہ رکھے اور حاضر و غائب تمام امور میں اسی کو دین سمجھے".
اسلامی اصطلاح میں دین کی تعریف
" اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا"
اور دین ہی ملت اسلام اور عقیدہ توحید ہے جو آدم ونوح سے لے کر آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام رسولوں کا دین ہے اللہ تعالی نے فرمایا :اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ[سورۃ آل عمران :19]
"بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے "۔
دین اسلام کی آمد کے بعد اللہ تعالی لوگوں سے اسلام کے سوا کسی بہی دین کو شرف قبولیت سے نہیں نوازے گا اللہ تعالی نے فرمایا :وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ [سورۃ آل عمران :85]
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا "۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ [سورۃ المائدۃ :5]
" آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا".
اور راجح ترین تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ: دین نام ہے کسی کی ذات کی پاکیزگی کا عقیدہ رکھنا اور ان تمام اعمال وکردار کا مجموعہ جن سے اس ذات قدسیہ کے سامنے عاجزی وخوف اور محبت وچاہت کے ساتھ جھکنے کا پتہ چلے(اظہار ہو)۔
اس تعریف میں تمام معبودان شامل ہوگئے خواہ وہ حق ہوں جیسے اللہ تعالی یا باطل جیسے اللہ کے علاوہ تمام معبودان،اسی طرح اس تعریف میں تمام طریقہائے عبادت بہی شامل ہوگئیں جس کے ذریعے لوگ اپنے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں خواہ وہ درست آسمانی عبادتیں ہوں جیسے اسلام یا وہ آسمانی عبادتیں جس میں تحریف وتنسیخ پیدا ہوگئیں یا گھڑی ہوئی غیر آسمانی عبادتیں جیسے ہندو ،بدھ،اور تمام بت پرستیاں ،اسی طرح مذکورہ تعریف سے یہ بہی پتہ چلتا ہے عبادت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عبادت کی حالت میں (خشوع) وخضوع سے متصف ہو اور معبود کے سامنے محبت وخاکساری کا مظاہرہ کرے ،کیونکہ یہ عبادت کے اہم ترین معانی میں سے ہے ،اور اس تعریف سے عابد (عبادت گزار) کی عبادت کے مقصد کا پتہ چلتا ہے جوکہ رجاء یا خوف یا بیک وقت خوف ورجاء کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے کہ یہی ابن آدم کی عبادت کا مقصود ہے.
مذاہب کی لغوی واصطلاحی تعریف
مذاہب کی لغوی تعریف
مذاہب جمع ہے مذہب کی" وہ عقیدہ وطریقہ جس کی طرف انسان جاتا ہے".
مذاہب کی اصطلاحی تعریف
"افکار وآراء کا وہ مجموعہ جس کا عقیدہ انسان اپنی علمی زندگی کے کسی ایک یا ایک سے زیادہ گوشے میں رکھتا ہے خواہ وہ اعتقاد میں ہو یا نظام وسلوک میں".
دین ومذاہب کے درمیان فرق
دین مذاہب سے زیادہ شامل اور مفہوم کے اعتبار سے زیادہ وسیع ہے اس لئے کہ دین انسان کے تمام عقائد پر مشتمل ہے جس کا تعلق خالق ، مخلوق اور غیبی امور کے ساتھ ساتھ آخرت کو بہی محیط ہے جبکہ مذاہب تو ان میں سے بعض امور میں یا بعض مسائل میں ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو فقط دنیوی امور ہی تک محدود ہوتے ہیں.
تقسیم الأديان
لوگوں کے ما بین رائج و متداول ادیان کی۔ بلحاظ ان کے معبود۔ دو قسمیں ہیں۔
(۱) ایسے ادیان جو اللہ واحد کی طرف بلاتے ہیں؛ ان میں سب سے پہلے نمبر پر اسلام ہے پھر یہودیت اور اس کے بعد نصرانیت ہے جس کی حقیقت۔ بعد از تحریف۔ شرک میں تبدیل ہو چکی ہے جو عبادت الہی کے ساتھ عبادت عیسوی سے عبارت ہے البتہ نصاریٰ- بزعم خویش- اقانیم ثلاثہ (تین ذاتوں"خدا خداوند مسیح و جبریل")والے الله واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس کی تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔
(۲) اصنام پرست ادیان جو غیراللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں جیسے ہندو، بدھ، اور ان کے علاوہ قدیم وجدید دور کے شرک پر مبنی ادیان ہیں اور نصاریٰ کو بھی- عبادت عیسی و جبریل کی وجہ سے- اس قسم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
علم الادیان فی القرآن الکریم وکتابة المسلمین فیه
قرآن کریم اور علماء اسلام کی تصنیفات میں علم ادیان کا تذکرہ:
قرآن کریم ایسی کتاب ہے جسے اللہ نے پوری انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل فرمائی ہے۔ یہی آخری آسمانی کتاب ہے جو دعوت اسلامی کا مصدر اور ہدایت کا سرچشمہ ہے اسی لئے اللہ نے اس میں لوگوں کے سابقہ ادیان کا بھی تذکرہ فرمایا ہے اور نزول قرآن کے وقت پائے جانے والے دیگر مذاہب کا بھی۔ اس لئے کہ یہ (مذاہب و ادیان سے واقفیت) مختلف مذاہب کے متبعین کو دعوت دینے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔
اس لئے کہ فرق ضالہ کے باطل(عقائد و طریقہ کار) کو پیش کرنا اور باطل کاحق کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اور باطل کے بطلان کی وجوہات کو بیان کرنا حق کی نمایاں خصوصیات کو اجاگر کرنا مزید یہ کہ حق کی وجوہات ترجیح کو نمایاں کرنا یہ سب ایسے اسالیب دعوت ہیں جو تقلیدی خول اور جہالت ونفس پرسی کے تاریک غلاف میں چھپے ذہن و دماغ کو روشنی عطا کرتے ہیں اور موازنہ و مقارنہ کرنے کی وجہ سےاس کے سامنے علم ومعرفت کے شفاف آفاق اور اطمینان ویقین کی بنیاد پر ایمان لانے کے وسیع خیالات کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔
اور جب ہم قرآن میں غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک بڑا ذخیرہ قرآن نے محفوظ کر رکھا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے ادیان کو اپنے اس قول میں محصور کر دیا ہے:اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ .
[سورة الحج :17]
"جو لوگ ایمان لائے ، اور جو یہودی ہوئے ، اور صابئی ، اور نصاری ،اور مجوس اور جن لوگوں نے شرک کیا ، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا ، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے".
لہذا انسانوں کے ادیان مندرجہ ذیل ادیان میں سے کسی ایک سے خارج نہیں ہو سکتے۔
اسلام، یہودیت، صائبہ نصرانیت، مجوسیت، اور اصنام پرستی.
جس طرح اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا اور بیان کیا کہ ان سب کی دعوت ایک تھی اور وہ توحید کی دعوت تہی.اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ [سورۃ الانبیاء :25]
"ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو".
اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کا دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے اللہ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں فرمایا :رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾
اے رب ، ہم دونوں کو اپنا مسلم ﴿مطیع فرمان﴾ بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے.رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ [سورۃ البقرۃ :128]
"اے رب ، ہم دونوں کو اپنا مسلم ﴿مطیع فرمان﴾ بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے".
اسی طرح اللہ عزوجل نے انبیاء کرام کے مجادلے کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیا اور مختلف طریقوں سے ان پر حجت قائم کی اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ان ادیان کا بہی تذکرہ کیا جس پر لوگ ہیں اور بطور دین اسے اختیار کرتے ہیں پہر اس دین کا تذکرہ کیا جو اس نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمائی اور اس سلسلے میں بہت ساری آیات وارد ہوئی ہیں اس کی مثالوں میں سے اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے :فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ* إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى*وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ * إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي * إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ * فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ*[سورة طه :11_16]
"اے موسی _ علیہ السلام _ میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے ۔تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے ، سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے ۔میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر ۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے ۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تاک ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائےپس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا"
پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا".
اللہ عزوجل نے متعدد آیات میں بنی اسرائیل کے انحرافات ،کفر اور کلام الہی میں ان کی تحریف کا تذکرہ کیا جن میں سے اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان بہی ہے :وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ.سورۃ آل عمران :78]
"ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے ، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے ، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا ، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں".
اور اللہ تعالی نے نصاری اور ان کے عقائد وانحرافات کا تذکرہ متعدد آیات میں کیا ہے انہیں میں سے ایک اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ وَ قَالَ الۡمَسِیۡحُ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَار [سورۃ المائدۃ :72]
" یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابنِ مریم ہی ہے ۔ حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ “ اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ” ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنّت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ".
اور اللہ رب العالمین نے فرمایا:لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہُوۡا عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ {سورۃ المائدۃ :73]
"یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اس کو درد ناک سزا دی جائے گی".
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے عیسی اور ان کی والدہ علیہما السلام کے سلسلے میں نصاری کے متعدد اقوال کا بہی تذکرہ کیا اور ان کے صولی دینے کے دعوے کا ذکر کیا اور ان تمام چیزوں میں حق کو واضح فرمایا نیز اللہ نے ان ادیان کے ماننے والوں کے چند منحرف اقوال کا بہی ذکر کیا اللہ عزوجل نےفرمایا :وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ [سورۃ التوبۃ:30]
"یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے ، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں ۔
پس اللہ رب العالمین نے یہ بات واضح کردی کہ یہود ونصاری نے اس طریقے کے اقوال پہلے کے کفار سے حاصل کیا ہے
یہ امر ثابت شدہ اور واضح ہےکہ جو بہی یہودیت ونصرانیت پر غور کرے گا وہ اس حقیقت کو پا لے گا کہ اس وقت مثلا فراعنہ یونانیوں اور رومانی کفار کے نزدیک بہی اللہ کے لئے بہی اللہ کے لئے اولاد کا دعوی کرنا عام تہا
اسی طرح اللہ عزوجل نے بت پرستی کا تذکرہ کیا اور ان کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان کے معبودوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی [سورۃ النجم :19_20]
" اب ذرا بتاؤ ، تم نے کبھی اس لات ، اور اس عزی اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر غور کیا ".
اور اللہ تعالی نے فرمایا :اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡن[سورۃ الصافات :125َ]
"کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو.
اسی طرح اللہ عزوجل نے مشرکین کے دلائل اور ان کا انبیاء کے ساتھ ہونے والے باہمی جدال کا ذکر اجمالی وتفصیلی دونوں اعتبار سے کیا اللہ رب العالمین نے ان کے اجمالی جدال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ ؕ ۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ ۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ[سورۃ ابراہیم :9]
"کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد و ثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے"
اور مشرکین کے تفصیلی دلائل آور انبیاء کرام علیہم السلام کے باہمی جدال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا (وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ * وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ * بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ * قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ * قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيب (وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِيدٍ * وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ * قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ * قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ * وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ[سورة الهود :84_93]
تو اللہ تعالی نے واضح کر دیا کہ فرعون اور اس کے متبعین ہی داعیانِ دوزخ کے ائمہ ہیں اور یہ بات تو متحقق ہے کہ دوزخ کے سب سے بڑے داعی فلاسفہ ہیں جن میں بعض ملحد ہیں اور بعض الہ کے قائل ہیں۔
یہ اس فکر کے بالکل برعکس ہے جو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے یہاں عام ہے کہ فلسفہ اور الحاد یونان کے فلاسفہ کی جانب منسوب ہیں، کیونکہ حق بات تو یہ ہے کہ فراعنہ فلسفہ میں یونان کے ائمہ مانے جاتے تھے اس بنیاد پر یونانیوں نے اپنے فلسفہ کی تعلیم انھیں سے حاصل کی تھی ہر انصاف پسند شخص جو یونانیوں کے فلسفے اور ان کی تحریروں و افسانوں کا مطالعہ کرے گا اسی طرح رومیوں کے افسانوں- جسے انھوں نے یونانیوں ہی سے سیکھا تھا- کا دراسہ کرے گا پھر ان سے ما قبل کے فراعنہ کے افسانوں اور ان کے فلسفوں کا بغور جائزہ لے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اگر چہ یونانیوں نے اپنے فلسفہ کو مزید وسعت دی اور ان کے متعلق بہت ساری باتیں پھیلا دی گئیں اور وہ انھیں کی طرف منسوب ہوگئیں۔
دکتور محمد دراز کا کہنا ہے کہ اب اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ قدیم علماء یونان اور ان کے فلاسفہ نے مشرقی ثقافت کے درس گاہ میں تعلیم مکمل کی تھی اور ان میں بھی بطور خاص مصری ثقافت میں۔
از قلم :معاذ دانش حمید اللہ
الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين امابعد!
بلا شبہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو ایسے وقت میں بہیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند ہوچکا تہا اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی معاملات میں فیصلہ کردیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِلَی اللّٰہِ تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ.
[سورۃ الشوری:52_53]
" یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔ خبردار رہو ، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں".
پہر لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے.
(1)مومن(2)کافر
رہے مومن تو ان کی ایک ہی جماعت ہے جو سیدھے راستے پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے نور سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ان کا راستہ روشنی سے پر ہے یہاں تک کہ وہ لوگ حجت اور رضائے الہی کی انتہا کو پہونچ جائیں اور جنت میں داخل ہو جائیں.
رہے کفار تو وہ مختلف جماعتوں اور ٹولیوں میں تقسم ہوگئے جن کا نقطہ اتحاد کفر اور نقطہ افتراق خواہشات اور شہوت پرستی پر مشتمل تہا.
ان میں بعض ملحد ہیں جو اپنے رب سے اندھے پن کا اظہار کرتے ہیں اور شریعت الہی کی دی ہوئی رہنمائی کو ترک کرکے دنیا میں منہمک ہوچکے ہیں .
ان میں سے بعض بت پرست ہیں جو اپنے رب سے بھٹک گئے اور ایسے (معبودان باطلہ)کی عبادت شروع کردی جو انہیں بے نیاز نہیں کرسکتے نہ ہی بھوک سے آسودہ کرسکتے ہیں.
ان میں بعض یہودی ہیں جنہیں اللہ نے علم کے باوجود گمراہ گردیا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ان کی نگاہوں پر پردہ ڈال دیا حسد وتکبر نے انہیں اندھا اور شیطان نے خبطی بنا دیا یہاں تک کہ انہوں نے حق سے اعراض کیا اور سرکشی اختیار کی ساتھ ہی بدترین اخلاقی رویہ اپناتے ہوئے اپنے رب سے بحث ومباحثہ کیا جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت وغضب کا مستحق ٹھرےاللہ رب العالمین ارشاد ہے :وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ.
[سورۃ آل عمران :117]
" اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا درحقیقت یہ خود اپنےاوپر ظلم کر رہے ہیں".
ان میں سے بعض نصرانی ہیں جنہوں نے صلیب کی عبادت کی،خواہشات کو اپنا معبود بنایا مجسمے کو سچا دین اور شرک کو توحید شمار کیا اللہ کے بارے میں قدیم کفار جیسی بڑی باتیں کہہ ڈالیں جس سے وہ خود گمراہ ہوئے دوسروں کو بہی گمراہ کیا شیطان نے ان کے برے کاموں کو مزین کرکے پیش کیا جسے انہوں نے اچھا سمجھ کر اپنا لیا اللہ تعالی نے فرمایا: يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ.
[سورة النحل :93]
"وہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا تا ہے جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے".اور فرمایا :وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ.[سورۃ فصلت:64 ]
"اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں".
مسلمان حق کی دعوت دیتا ہے اسے ہلاک ہونے والوں کی کثرت اور چلنے والوں کی قلت نقصان نہیں پہونچا سکتی جب وہ اللہ تعالی کے نور اور اور اس کی ہدایت کے مطابق چلتا ہے مزید براں مسلمان نرم مزاج پاکیزہ اور ہوشیار ناصح ہوتا ہے لوگوں کی نجات کے لئے نصیحت کرتا ہے اور شفاء کی امید سے مریض کو دوا بتاتا ہے (اور یہ بات متحقق ہے) کہ جو بیماری سے نا آشنا ہو وہ دوا نہیں بتا سکتا.
اس لئے مسلمان داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ادیان ومذاہب کے تعلق سے کچھ نہ کچھ جانکاری ضرور رکھے کیونکہ اس کے بے شمار فوائد ہیں.
(1)جب داعی دیگر ادیان باطلہ میں پائے جانے والے بگاڑ وانحرافات کی جانکاری حاصل کرلے گا تو وه ان خرابیوں کے مقابلے میں اسلام میں پائی جانے والی خوبیوں کو(لوگوں کے سامنے) بیان کرے گا تو اس کے لئے دعوت میں آسانی پیدا ہوگی .
(2)نصرانیوں نے مسلمانوں کے بیشتر علاقوں میں جنگی معرکہ آرائیاں کیں جس کے نتیجے میں وہ لوگ مسلم علاقوں میں زہر پہیلاتے رہے اور انہیں نصرانی بنانے کے لئے جاہل اور سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا شکار بناتے رہے اس لئے داعیان اسلام کو نصرانیوں کے دین کی معرفت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ ان میں پائے جانے والے انحرافات ودعوتی بگاڑ کو عام مسلمانوں کے سامنے واضح کیا جاسکے.
(3)اسلام کے علاوہ دیگر ادیان ومذاہب پر( دور اندیشی پر مبنی نگاہ اور )گہری نظر رکھنا، مسلمانوں کے یقین میں اضافہ کرتا ہے، اس سے اسلام کی امتیازی حیثیت اور سربلندی ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام ابہی تک توحید خالص پر قائم ودائم ہے اور اس کے مصادر (کتاب وسنت کی شکل میں) ان تمام تر انحرافات سے محفوظ ہیں جس میں دیگر ادیان کے مصادر واقع ہوچکے ہیں ،
(4)ادیان باطلہ کے پروکاروں نے اپنی کتابوں میں تحریف سے کام لیا ان انحرافات سے واقفیت اختیار کرنے سے اللہ رب العالمین کے اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے جس میں ان کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کرڈالی اور انہیں اصلی شکل میں باقی نہیں رکھا مزید برآں اللہ کی دی گئی خبر پر ایمان لانے سے ایمان مجمل کے بعد ایمان مفصل حاصل ہوتا ہے.
(5)داعی کو ان ادیان کی تاریخ وحقائق کی معرفت حاصل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کی کتابوں میں پائے جانے والے انحرافات کی جگہیں اور اس کے اسباب لوگوں کے سامنے واضح کرسکیں تاکہ ان اسباب سے اجتناب کیا جا سکے.
(6)مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کا خاتمہ کرنے کرنے والے انحرافی رجحانات اور گمراہ کن ادیان ومذاہب کے خطرات کو دیکھنے سے اس علم (علم الادیان) کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے .
لہذا داعیان اسلام کو علم وبصیرت کے ساتھ مسلمانوں اور پوری انسانیت کو گمراہ کرنے والے افکار ورجحانات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے دین کے تئیں خاص اہتمام کرنا چاہئے تاکہ وہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے اور گمراہی سے بچانے والے بہتر داعی بن سکیں.
(بلاشبہ) حق وباطل کا ٹکراؤ ہمیشہ سے اللہ کی سنت رہی ہے اور حق کی مدد وہی کرسکتا ہے جو خیر وشر کی معرفت رکھتا ہے خیر وبھلائی پر عمل کرتا اور شر سے اجتناب کرتا ہے خیر کی دعوت دیتا اور شر سے ڈراتا ہے.
اس زمانے میں ہر طرف سے تمام امتیں مسلمانوں کے مد مقابل نبرد آزما ہیں دشمنان اسلام ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ مختلف بدعات وخرافات فسادات و فکری انقلاب کے ذریعے معرکہ آرائییوں میں مصروف عمل ہیں اور ایسا اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین کے سلسلے میں تساہل برتنا شروع کردیا اور ان کی اخلاقی سر بلندی شریعت پر پابندی اور عقیدے میں مضبوطی باقی نہیں رہی .
اور (دوبارہ) مسلمانوں کو عزت ونصرت قوت واقتدار اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ اپنی دین کی معرفت حاصل کریں اس پر مضبوطی سے قائم ہوجائیں ساتھ ہی اپنے دشمن کی معرفت حاصل کریں ان کی جنگی چالوں اور طریقہ ہائے جنگ کی صحیح معرفت حاصل کرلیں.
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ایمان وہ ہے جو دل میں بیٹھ جائے اور اعمال اس کی تصدیق کردیں سو جس نے کوئی بات کہی اور اس پر عمل کیا تو وہ قابل قبول ہوگا اور جس نے کوئی بات کہی اور اس پر عمل نہیں کیا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا اور سب سے خطرناک عمل جو دشمنان اسلام نے سر انجام دیا وہ یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان ادیان باطلہ( کی تعلیمات) اور (غلط) افکار ورجحانات کو عام کیا.
یہ وہ (حقائق) ہیں جنہیں ہر مسلمان کو جاننا ضروری ہے چہ جائیکہ طالب علم .
یہیں سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان باطل ادیان ومذاہب کا دراسہ کس قدر ضروری ہے اور لوگوں کے سامنے مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت پر آنے والے خطرات کا واضح کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے.
مدخل لدراسة الأديان والمذاهب المعاصرة
ادیان ومذاہب کی لغوی و اصطلاحی تعریف
ادیان کی لغوی تعریف
ادیان جمع ہے دین کی جو فعل ثلاثی "دان"سے مشتق ہے اور کبہی بذات خود متعدی ہوتا ہے اور کبہی" لام "کے ذریعہ تو کبہی "با"کے ذریعہ متعدی ہوتا ہے اور حرف جر کے اختلاف سے معنی بہی مختلف ہوتا ہے.
جب بذات خود متعدی ہوتا ہے تو "دانه"ہوجاتا ہے.
بمعنی "مالک ہونا سیاسی رہنمائی کرنا تابع بنانا حساب لینا".
اورجب لام کے ذریعہ متعدی ہو "دان له "ہوجاتا ہے.
بمعنی " کسی کے سامنے اظہار عجز کرنا،فرمانبرداری کرنا".
اور جب "با" کے ذریعہ متعدی ہو تو "دان به"ہوجاتا ہے.
بمعنی "کسی دین اور مذہب کو اپنانا عادت بنانا کسی کو اپنانا اور اس کا عقیدہ رکھنا ".
دین کی اصطلاحی تعریف
دین کی تعریف کے سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے بایں طور پر کہ ہر انسان اپنے مسلک کے اعتبار سے تعریف کرتا ہے اور جس نے یہ خیال کیا کہ یہ دین کی اہم خصوصیات میں سے ہے تو ان میں بعض لوگوں نے دین کی تعریف اس طور سے کی کہ:
"الشرع الإلهي المتلقى عن طريق الوحي "
"وہ قانون الہی جو علی سبیل الوحی حاصل کی گئی ہو".
یہ تعریف اپنے اندر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیتی ہے تاہم یہ تعریف قابل غور ہے کیونکہ اس تعریف کی روشنی میں دین محض آسمانی دین تک ہی مقید رہ گیا جبکہ درست اور صحیح بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے لوگ اختیار کریں اس کی عبادت کریں تو اسے دین سے موسوم کیا جائے گا خواہ وہ( دین) حق ہو یا باطل ، اللہ عزوجل کے اس قول سے استدلال کرتے ہوئے جس میں ہےوَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡن[سورۃ آل عمران :85]
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا" ۔ اور جیسے اللہ تعالی کا قول :لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ[سورۃ الکافرون:6]
"تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے "۔
پس مشرکین عرب جس بت پرستی پر قائم تہے اللہ نے اس کا نام دین رکھا.
اور اصطلاح عام میں دین کہا جاتا ہے "جس کا انسان عقیدہ رکھے اور حاضر و غائب تمام امور میں اسی کو دین سمجھے".
اسلامی اصطلاح میں دین کی تعریف
" اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا"
اور دین ہی ملت اسلام اور عقیدہ توحید ہے جو آدم ونوح سے لے کر آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام رسولوں کا دین ہے اللہ تعالی نے فرمایا :اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ[سورۃ آل عمران :19]
"بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے "۔
دین اسلام کی آمد کے بعد اللہ تعالی لوگوں سے اسلام کے سوا کسی بہی دین کو شرف قبولیت سے نہیں نوازے گا اللہ تعالی نے فرمایا :وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ [سورۃ آل عمران :85]
"جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا "۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ [سورۃ المائدۃ :5]
" آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا".
اور راجح ترین تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ: دین نام ہے کسی کی ذات کی پاکیزگی کا عقیدہ رکھنا اور ان تمام اعمال وکردار کا مجموعہ جن سے اس ذات قدسیہ کے سامنے عاجزی وخوف اور محبت وچاہت کے ساتھ جھکنے کا پتہ چلے(اظہار ہو)۔
اس تعریف میں تمام معبودان شامل ہوگئے خواہ وہ حق ہوں جیسے اللہ تعالی یا باطل جیسے اللہ کے علاوہ تمام معبودان،اسی طرح اس تعریف میں تمام طریقہائے عبادت بہی شامل ہوگئیں جس کے ذریعے لوگ اپنے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں خواہ وہ درست آسمانی عبادتیں ہوں جیسے اسلام یا وہ آسمانی عبادتیں جس میں تحریف وتنسیخ پیدا ہوگئیں یا گھڑی ہوئی غیر آسمانی عبادتیں جیسے ہندو ،بدھ،اور تمام بت پرستیاں ،اسی طرح مذکورہ تعریف سے یہ بہی پتہ چلتا ہے عبادت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عبادت کی حالت میں (خشوع) وخضوع سے متصف ہو اور معبود کے سامنے محبت وخاکساری کا مظاہرہ کرے ،کیونکہ یہ عبادت کے اہم ترین معانی میں سے ہے ،اور اس تعریف سے عابد (عبادت گزار) کی عبادت کے مقصد کا پتہ چلتا ہے جوکہ رجاء یا خوف یا بیک وقت خوف ورجاء کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے کہ یہی ابن آدم کی عبادت کا مقصود ہے.
مذاہب کی لغوی واصطلاحی تعریف
مذاہب کی لغوی تعریف
مذاہب جمع ہے مذہب کی" وہ عقیدہ وطریقہ جس کی طرف انسان جاتا ہے".
مذاہب کی اصطلاحی تعریف
"افکار وآراء کا وہ مجموعہ جس کا عقیدہ انسان اپنی علمی زندگی کے کسی ایک یا ایک سے زیادہ گوشے میں رکھتا ہے خواہ وہ اعتقاد میں ہو یا نظام وسلوک میں".
دین ومذاہب کے درمیان فرق
دین مذاہب سے زیادہ شامل اور مفہوم کے اعتبار سے زیادہ وسیع ہے اس لئے کہ دین انسان کے تمام عقائد پر مشتمل ہے جس کا تعلق خالق ، مخلوق اور غیبی امور کے ساتھ ساتھ آخرت کو بہی محیط ہے جبکہ مذاہب تو ان میں سے بعض امور میں یا بعض مسائل میں ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو فقط دنیوی امور ہی تک محدود ہوتے ہیں.
تقسیم الأديان
لوگوں کے ما بین رائج و متداول ادیان کی۔ بلحاظ ان کے معبود۔ دو قسمیں ہیں۔
(۱) ایسے ادیان جو اللہ واحد کی طرف بلاتے ہیں؛ ان میں سب سے پہلے نمبر پر اسلام ہے پھر یہودیت اور اس کے بعد نصرانیت ہے جس کی حقیقت۔ بعد از تحریف۔ شرک میں تبدیل ہو چکی ہے جو عبادت الہی کے ساتھ عبادت عیسوی سے عبارت ہے البتہ نصاریٰ- بزعم خویش- اقانیم ثلاثہ (تین ذاتوں"خدا خداوند مسیح و جبریل")والے الله واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس کی تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔
(۲) اصنام پرست ادیان جو غیراللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں جیسے ہندو، بدھ، اور ان کے علاوہ قدیم وجدید دور کے شرک پر مبنی ادیان ہیں اور نصاریٰ کو بھی- عبادت عیسی و جبریل کی وجہ سے- اس قسم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
علم الادیان فی القرآن الکریم وکتابة المسلمین فیه
قرآن کریم اور علماء اسلام کی تصنیفات میں علم ادیان کا تذکرہ:
قرآن کریم ایسی کتاب ہے جسے اللہ نے پوری انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل فرمائی ہے۔ یہی آخری آسمانی کتاب ہے جو دعوت اسلامی کا مصدر اور ہدایت کا سرچشمہ ہے اسی لئے اللہ نے اس میں لوگوں کے سابقہ ادیان کا بھی تذکرہ فرمایا ہے اور نزول قرآن کے وقت پائے جانے والے دیگر مذاہب کا بھی۔ اس لئے کہ یہ (مذاہب و ادیان سے واقفیت) مختلف مذاہب کے متبعین کو دعوت دینے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔
اس لئے کہ فرق ضالہ کے باطل(عقائد و طریقہ کار) کو پیش کرنا اور باطل کاحق کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اور باطل کے بطلان کی وجوہات کو بیان کرنا حق کی نمایاں خصوصیات کو اجاگر کرنا مزید یہ کہ حق کی وجوہات ترجیح کو نمایاں کرنا یہ سب ایسے اسالیب دعوت ہیں جو تقلیدی خول اور جہالت ونفس پرسی کے تاریک غلاف میں چھپے ذہن و دماغ کو روشنی عطا کرتے ہیں اور موازنہ و مقارنہ کرنے کی وجہ سےاس کے سامنے علم ومعرفت کے شفاف آفاق اور اطمینان ویقین کی بنیاد پر ایمان لانے کے وسیع خیالات کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔
اور جب ہم قرآن میں غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک بڑا ذخیرہ قرآن نے محفوظ کر رکھا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے ادیان کو اپنے اس قول میں محصور کر دیا ہے:اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ .
[سورة الحج :17]
"جو لوگ ایمان لائے ، اور جو یہودی ہوئے ، اور صابئی ، اور نصاری ،اور مجوس اور جن لوگوں نے شرک کیا ، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا ، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے".
لہذا انسانوں کے ادیان مندرجہ ذیل ادیان میں سے کسی ایک سے خارج نہیں ہو سکتے۔
اسلام، یہودیت، صائبہ نصرانیت، مجوسیت، اور اصنام پرستی.
جس طرح اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا اور بیان کیا کہ ان سب کی دعوت ایک تھی اور وہ توحید کی دعوت تہی.اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدُوۡنِ [سورۃ الانبیاء :25]
"ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو".
اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اس کا دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے اللہ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں فرمایا :رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾
اے رب ، ہم دونوں کو اپنا مسلم ﴿مطیع فرمان﴾ بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے.رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ [سورۃ البقرۃ :128]
"اے رب ، ہم دونوں کو اپنا مسلم ﴿مطیع فرمان﴾ بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما ، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے".
اسی طرح اللہ عزوجل نے انبیاء کرام کے مجادلے کا ذکر کیا جو انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیا اور مختلف طریقوں سے ان پر حجت قائم کی اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ان ادیان کا بہی تذکرہ کیا جس پر لوگ ہیں اور بطور دین اسے اختیار کرتے ہیں پہر اس دین کا تذکرہ کیا جو اس نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمائی اور اس سلسلے میں بہت ساری آیات وارد ہوئی ہیں اس کی مثالوں میں سے اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے :فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ* إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى*وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ * إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي * إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ * فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ*[سورة طه :11_16]
"اے موسی _ علیہ السلام _ میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے ۔تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے ، سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے ۔میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر ۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے ۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تاک ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائےپس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا"
پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا".
اللہ عزوجل نے متعدد آیات میں بنی اسرائیل کے انحرافات ،کفر اور کلام الہی میں ان کی تحریف کا تذکرہ کیا جن میں سے اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان بہی ہے :وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ.سورۃ آل عمران :78]
"ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے ، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے ، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا ، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں".
اور اللہ تعالی نے نصاری اور ان کے عقائد وانحرافات کا تذکرہ متعدد آیات میں کیا ہے انہیں میں سے ایک اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ؕ وَ قَالَ الۡمَسِیۡحُ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ الۡجَنَّۃَ وَ مَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَار [سورۃ المائدۃ :72]
" یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابنِ مریم ہی ہے ۔ حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ “ اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ” ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنّت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ".
اور اللہ رب العالمین نے فرمایا:لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہُوۡا عَمَّا یَقُوۡلُوۡنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ {سورۃ المائدۃ :73]
"یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اس کو درد ناک سزا دی جائے گی".
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے عیسی اور ان کی والدہ علیہما السلام کے سلسلے میں نصاری کے متعدد اقوال کا بہی تذکرہ کیا اور ان کے صولی دینے کے دعوے کا ذکر کیا اور ان تمام چیزوں میں حق کو واضح فرمایا نیز اللہ نے ان ادیان کے ماننے والوں کے چند منحرف اقوال کا بہی ذکر کیا اللہ عزوجل نےفرمایا :وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ [سورۃ التوبۃ:30]
"یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے ، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں ۔
پس اللہ رب العالمین نے یہ بات واضح کردی کہ یہود ونصاری نے اس طریقے کے اقوال پہلے کے کفار سے حاصل کیا ہے
یہ امر ثابت شدہ اور واضح ہےکہ جو بہی یہودیت ونصرانیت پر غور کرے گا وہ اس حقیقت کو پا لے گا کہ اس وقت مثلا فراعنہ یونانیوں اور رومانی کفار کے نزدیک بہی اللہ کے لئے بہی اللہ کے لئے اولاد کا دعوی کرنا عام تہا
اسی طرح اللہ عزوجل نے بت پرستی کا تذکرہ کیا اور ان کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان کے معبودوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی [سورۃ النجم :19_20]
" اب ذرا بتاؤ ، تم نے کبھی اس لات ، اور اس عزی اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر غور کیا ".
اور اللہ تعالی نے فرمایا :اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّ تَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡن[سورۃ الصافات :125َ]
"کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو.
اسی طرح اللہ عزوجل نے مشرکین کے دلائل اور ان کا انبیاء کے ساتھ ہونے والے باہمی جدال کا ذکر اجمالی وتفصیلی دونوں اعتبار سے کیا اللہ رب العالمین نے ان کے اجمالی جدال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ ؕ ۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ ۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ[سورۃ ابراہیم :9]
"کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد و ثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ ہے"
اور مشرکین کے تفصیلی دلائل آور انبیاء کرام علیہم السلام کے باہمی جدال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا (وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُمْ بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُحِيطٍ * وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ * بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ * قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ * قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيب (وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِيدٍ * وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ * قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ * قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ * وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ[سورة الهود :84_93]
تو اللہ تعالی نے واضح کر دیا کہ فرعون اور اس کے متبعین ہی داعیانِ دوزخ کے ائمہ ہیں اور یہ بات تو متحقق ہے کہ دوزخ کے سب سے بڑے داعی فلاسفہ ہیں جن میں بعض ملحد ہیں اور بعض الہ کے قائل ہیں۔
یہ اس فکر کے بالکل برعکس ہے جو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے یہاں عام ہے کہ فلسفہ اور الحاد یونان کے فلاسفہ کی جانب منسوب ہیں، کیونکہ حق بات تو یہ ہے کہ فراعنہ فلسفہ میں یونان کے ائمہ مانے جاتے تھے اس بنیاد پر یونانیوں نے اپنے فلسفہ کی تعلیم انھیں سے حاصل کی تھی ہر انصاف پسند شخص جو یونانیوں کے فلسفے اور ان کی تحریروں و افسانوں کا مطالعہ کرے گا اسی طرح رومیوں کے افسانوں- جسے انھوں نے یونانیوں ہی سے سیکھا تھا- کا دراسہ کرے گا پھر ان سے ما قبل کے فراعنہ کے افسانوں اور ان کے فلسفوں کا بغور جائزہ لے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اگر چہ یونانیوں نے اپنے فلسفہ کو مزید وسعت دی اور ان کے متعلق بہت ساری باتیں پھیلا دی گئیں اور وہ انھیں کی طرف منسوب ہوگئیں۔
دکتور محمد دراز کا کہنا ہے کہ اب اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ قدیم علماء یونان اور ان کے فلاسفہ نے مشرقی ثقافت کے درس گاہ میں تعلیم مکمل کی تھی اور ان میں بھی بطور خاص مصری ثقافت میں۔
تبصرے