نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر

(عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی)

از قلم: معاذ دانش حمید اللہ

ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے 

کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

کرونا وائرس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ یہ جانوروں میں پایا جانے والا ایک وائرس(جراثیم) ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا ہے یہ وائرس چین کے شہر ویاہان سے شروع ہوا چونکہ چین ایک گنجان آبادی والا ملک ہے جہاں مختلف قسم کے غلیظ جانور مثلا چمگادڑ سانپ لومڑی چوہا حتی کہ ہر زمین میں گھسنے والے جاندار کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے انہیں موذی جانوروں میں سے کسی جانور کے جراثیم انسانوں میں منتقل ہوئے جس کی وجہ سے  چند ہی ایام میں انسانی نظام درہم برہم ہوگیا 

کورونا وائرس کی وجہ تسمیہ

کورونا (corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام "کورونا وائرس" رکھا گیا ہے۔

وائرس(جراثیم)کیا ہیں

وائرس(جراثيم) اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہیں جو صرف خردبین یا الٹرامائکرو اسکوپ کے ذریعے ہی نظر آتے ہیں یہ فی نفسہ مرض نہیں بلکہ بسا اوقات مرض کا سبب بنتے ہیں حالیہ دنوں میں چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہونے والے جراثیم کو (nCoV-19) کا نام دیا گیا ہے 

کرونا وائرس کی علامات

ابہی تک جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان افراد کو دیکھتے ہوئے درج ذیل علامات سامنے آئی ہیں 

اس وائرس کی ابتدا بظاہر تیز بخار سے شروع ہوتی ہے 

پھر بد ہضمی اور سردی کا احساس شروع ہوتا ہے 

اس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے

ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوتی ہے 

کیا کرونا وائرس ایک متعدی مرض ہے

جی ہاں! کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو کسی شخص کو لاحق ہونے کے تقریبا چودہ دنوں کے بعد کھل کر سامنے آتا ہے 

متعدی مرض کا مفہوم

ہر وہ بیماری جو جرثومے کی منتقلی سے معرض وجود میں آئے اور بڑھتی چلی جائے اسے طبی زبان میں وبائی یا متعدی بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے 

کیا اسلام میں متعدی بیماریوں کا تصور ہے؟

اسلام میں متعدی یا وبائی بیماریاں اس معنی میں پائی
 جاتی ہیں کہ وہ بذات خود موثر(اثر اندازہونے والی) نہیں ہوتی ہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے جو اس میں اثر پیدا کرتی ہے یہ بات درست ہے کہ جرثومے کی منتقلی سے بیماریاں ہوتی ہیں اور بسا اوقات بہت تیزی کے ساتھ آس پاس کے افراد کو اپنی چپیٹ میں لے لیتی ہیں لیکن یہ جرثومے اسی وقت اڑ کر کسی انسان کو لگ سکتے ہیں جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو
اگر اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال رہا تو وہ جرثومے انسان تک پہونچ کر رہیں گے اگر چہ وہ کوسوں دور ہو اور اگر اس کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال نہ تو کبہی نہیں پہونچ سکتے اگر چہ وہ مریض کے شانہ بشانہ رہے 
چونکہ دور جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تہا کہ بیماریوں کے پھیلنے میں اللہ کے حکم کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ بذات خود پھیلتی ہیں اس باطل عقیدے کو رد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :لاعدوی (مسلم:2221)

"کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی"

اس حدیث کے ذریعہ جاہلیت کے عقیدے کو باطل قرار دیا گیا ساتھ ہی یہ بات بہی واضح ہوگئی کہ وبائی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب جراثیم کا اڑ کر لگنا ہی ہے لیکن یہ سبب اسی وقت پایا جاتا ہے جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو 

کرونا وائرس کو لعن طعن کرنے کا حکم

امراض کو لعن طعن کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور نہ ہی لعنت کرنا ایک مومن کی شان ہے
رسول اللہ ﷺ ام مسیب کے گھر گئے اور فرمایا :
اے ام مسیب تم کانپ کیوں رہی ہو؟ تو وہ کہنے لگیں بخار کی وجہ سے لا بارك الله فيها اللہ اس میں برکت نہ کرے تو آپ نے فرمایا:

بُخار کو بُرا مت کہو ، کیونکہ وہ بنی آدم کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے

(صحیح مسلم:6244)

یہاں بخار کو برا بھلا کہنے سے منع کرنا تمام امراض کو برا بھلا کہنے کو شامل ہے کیونکہ سارے امراض اللہ کی تقدیر کا حصہ ہونے اور خطاؤں کو مٹانے میں مشترک ہیں.
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز پر لعن طعن کرے جو اس کا اہل نہیں ہے اور امراض اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہیں امراض کو گالی دینا اللہ کو گالی دینے کے درجے میں ہے لہذا جو شخص اس طرح کا کلمہ اپنی زبان سے نکالے اسے چاہیے کہ اللہ سے توبہ کرے اپنے دین کی طرف رجوع کرے، جان لے کہ مرض اللہ کی تقدیر سے ہوتا ہے اور جو بہی مصیبت انسان کو لاحق ہوتی ہے سب اس کے برے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اللہ ظالم نہیں ہے بلکہ انسان خود ظالم ہے.

کرونا وائرس سے قبل تاریخ کے چند وبائی امراض

طاعون عمواس

طاعون عمواس خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں پھیلنے والی ایک وبا ہے جس میں ہزاروں صحابہ وفات پاگئے جب یہ وبا کثرت کے ساتھ پھیلنے لگی اور رومی ودیگر اطباء اس کے روک تھام سے عاجز آگئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمر بن عاص کے پاس خط بھیج کر مطالبہ کیا کہ وہ اس وبا سے نکلنے کی کوئی تدبیر نکالیں تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"فتأملت فيه (الطاعون)فوجدته ينتشر عندما يجتمع الناس فامرتهم ان يتفرقوا في الارياف او الجبال فانتهى الطاعون في ثلثة ايام "کہ میں نے طاعون کے سلسلے میں غور کیا تو پتہ چلا کہ لوگوں کے جمع ہونے پر یہ پھیل رہا ہے تو میں نے انہیں دیہات یا پہاڑوں میں منتشر ہونے کی ہدایت کی ، لہذا طاعون تین دن میں ختم ہوگیا۔

سیاہ موت(بلیک ڈیتھ)

یہ ایک تباہ کن وبائی مرض تھا جو 1347ءتا 1350ء تک رہا ایک اندازے کے مطابق یورپ میں بیس کروڑ افراد اس وبا سے ہلاک ہوئے
سیاہ موت میں تباہی اس قدر بھیانک تھی کہ پورے شہر میں مُردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا تہا اس وبا کے اثرات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی اور دوبارہ آبادی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے دنیا کو دو سو سال لگ گئے۔

ہسپانوی فلو

1918ءتا 1920ءکے دوران اس وبا نے محض اپنے ابتدائی 25 ہفتوں میں 25 ملین افراد کو موت گھاٹ اتار دیا  یہ وبا امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیل گئی تھی۔

سال رحمت 

یہ وبا1919ء میں جزیرہ عرب میں پھیلی تین مہینے تک رہنے والی اس وبا میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے مردوں کی اس قدر کثرت تہی کہ ایک ایک دن میں سو سو جنازے کی نماز  پڑھی جاتی مساجد بند ہوگئیں رہائش گاہوں سے مکانات خالی ہوگئے  مویشیاں جنگلات میں ماری ماری پھرنے لگیں کوئی چرانے اور پانی پلانے والا نہیں ملتا کثرت سے لاشوں کو دیکھ کر لوگوں میں ہمدردی اور رحم کا مادہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے سنة الرحمة یعنی "سال رحمت" کا نام دے دیا 

مذکورہ بالا وبائی امراض کو مد نظر رکھتے ہوئے دو بنیادی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں

:1
-وبائی امراض سے بچنے کے لئے آپسی اختلاط سے بچنا از حد ضروری ہے یہی نسخہ  طاعون عمواس میں عمرو بن عاص نے اختیار کیا اور یہی نسخہ آج کے اطباء نے بہی اختیار کیا ہے شاعر کہتا ہے ع
عجیب درد ہے جس کہ دوا ہے تنہائی
2:
آپسی اختلاط سے بچتے ہوئے اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا کیونکہ اسی کے ہاتھ میں شفا ہے واذا مرضت فهو يشفين جب میں بیمار پڑوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے تاریخ کے تمام وبائی امراض کے انتشار کے دوران اسی پر ہمارے اسلاف کا عمل رہا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں 

کرونا وائرس کے تئیں چند احتیاطی تدابیر 

اللہ رب العالمین نے کوئی ایسا مرض نازل نہیں کیا جس کی دوا نازل نہ کی ہو عموما انسان مرض کا علاج تلاش کرلیتا ہے تاہم بسا اوقات ایسا بہی ہوتا ہے کہ انسان علاج تک رسائی حاصل کرنے پر قادر نہیں ہوتا کورونا وائرس بہی انہیں امراض میں سے ایک ہے جس کے علاج تک اطباء ابہی تک نہیں پہونچ سکے ہیں تاہم گزشتہ مریضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اطباء کی جانب سے چند احتیاطی تدابیر بتائے گئے ہیں جن کو اختیار کیا جانا ازحد ضروری ہے 

گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منھ کو چھونے سے  گریز کریں

سانس کی بیماری، جیسے کھانسی یا چھینک کی علامات ظاہر کرنے والے کسی بھی شخص کے براه راست رابطے سے گریز کریں

-صابون یا پانی سے درج ذیل مواقع پرہاتھ دھوئیں

کھانا پکانے سے پہلے، دوران میں اور بعد میں

کھانے سے پہلے۔ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد

کسی بیمار فرد کی دیکھ بھال کرنے سے پہلے یا بعد میں

باتھ روم استعمال کرنے کے بعد

بچے کے ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد

جانوروں کو چھونے کے بعد

کوڑا کرکٹ چھونے کے بعد

انفیکشن کو کم کرنے کے لیے چھینکنے کے آداب

چھینکنے یا کھانسنے کے لیے ڻشو پیپر یا رومال کا استعمال کریں۔

اپنے ہاتھوں کو گرم صابن والے پانی سے 40 سیکنڈ تک دھوئیں۔

جتنی جلد ممکن ہو اس سے نجات حاصل کریں۔

یا اپنے بازو کو موڑ کر کہنی کااستعمال کریں۔

ماسک کا استعمال کب کریں

ماسک کا استعمال درج ذیل مواقع پر کریں 

سانس کی علامات میں مبتلا ہوں، جیسے کہ (چھینک اور کھانسی)

سانس کی علامات والے کسی شخص کی دیکھ بھال کر رہے ہوں

گزشتہ دنوں آپ ان ممالک میں سے کسی ایک میں تھے جن میں کورونا
وائرس کے معاملے درج کیے گئے ہیں؟

کھانسی یا چھینک آنے پردرج ذیل طریقہ کار اپنائیں

وائپس کا استعمال کریںاور انھیں کوڑے دان میں پھینک
دیں 
یا اپنے منہ کو کہنی سے ڈھکیں

گفتگو کے دوران اپنے درمیان میں کم از کم ایک میڻر کا فاصلہ رکھیں۔

گھر سے نکلنے یا دوسروں کے ساتھ مخلوط ہونے پر ماسک پہنیں

پھر اپنے ہاتھوں کو صابن، پانی یا جراثیم کش الکحل سے
دھوئیں

اسلامی تعليمات جو متعدد امراض سے بچانے میں معاون ہیں 

کرونا وائرس جو بتدریج دنیا میں پھیلتا جارہا ہے اس تناظر میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا اطباء کی جانب سے دئیے گئے احتیاطات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسلم ہونے کے ناطے اسلامی تعلیمات پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں کیونکہ اسلام کے اندر وہ ساری چیزیں ابتداء موجود ہیں جو بعد میں اطباء کی جانب سے ہمیں بتائی جاتی ہیں آئیے ہم چند سطور میں صفائی ستھرائی کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہیں اگر ہم انہیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نافذ کرلیں تو بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں 

ہمارے لئے ضروری ہے کہ:

ہم حسی اور معنوی دونوں گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کریں

ظاہری گندگی سے پاکی کا سبب پانی اور اس کا متبادل مٹی ہے 
معنوی گندگی سےپاکی کا سبب توبہ ہے 

اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلتَّوَّ ٰ⁠بِینَ وَیُحِبُّ ٱلۡمُتَطَهِّرِینَ

اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے 

یعنی جو لوگ ظاہری گندگیوں کی صفائی کرتے ہیں اور باطنی گندگیوں سے توبہ کرتے ہیں ایسے لوگوں سے اللہ رب العالمین محبت کرتا ہے 

حسی (ظاہری) گندگی سے مراد

حسی گندگی سے مراد بدن کی گندگی ہے یعنی انسان اپنے بدن کی صاف صفائی رکھے اگر کوئی شخص مکمل طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو خود بخود وہ ظاہری ومعنوی دونوں گندگیوں سے پاک صاف ہوجائے اور بہت ساری بیماریوں سے بچ جائے کیونکہ اسلام ہمیں متعدد مواقع پر صاف صفائی کا حکم دیتا ہے حتی کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی فطرت کا حصہ ہیں ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا یا مونڈنا انہیں چالیس دنوں سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا اسی طریقے بہت سارے مواقع پر غسل کو مشروع کیا گیا مثلاجمعہ کا غسل ،عیدین کا غسل ،کسوف کا غسل، میت کو نہلانے کے بعد غسل ، پاگل کے افاقہ کے وقت غسل، خروج منی کا غسل، جماع کے بعد غسل، استحاضہ عورت کے لیے ہر نماز کے لیے غسل، حج وعمرہ میں بعض مقامات پر غسل، اسی طرح منہ کی صاف صفائی کے لئے جہاں متعدد مواقع پر مسواک کو مشروع قرار دیا وہیں دن بھر کی پانچ نمازوں کے لیے وضو ،جس میں ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ ناک میں پانی ڈال کر اندر تک کھینچنا اور تیزی کے ساتھ اسے جھاڑنا بہی شامل ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت کے لیے وضو ،دو مرتبہ جماع کرنے کے درمیان وضو 
، بیوی سے ملاعبت کے وقت نکلنے والے مذی کے لئے وضو، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو ،سونے سے قبل وضو ،سوکر اٹھنے کے بعد کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھلنا ناک جھاڑنا ،حتی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تہا کہ آپ ہمیشہ باوضو رہتے لہذا یہی ہر مومن کی شان ہونی چاہیے اگر انسان اس پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے تو بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے

معنوی (باطنی) گندگی سے مراد 

معنوی گندگی سے مراد عمل کی گندگی یعنی شرک وبدعات کفر ومعاصی کی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرے، اللہ کی طرف رجوع کرے،توبہ واستغفار کرے،جن مواقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں ثابت ہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں انہیں نافذ کرے،تہجد کا اہتمام کرے،مومن اس مصیبت پرصبر کرتے ہوئے اللہ سے اجروثواب کی امید رکھے، نفس کا محاسبہ کرے

ہر ایک شخص کے عمل کا محاسبہ دوسرے شخص سے مختلف ہوسکتا ہے

کافر اپنے تمام معبودان باطلہ کی عبادت ترک کرے اورایک اللہ کی عبادت پر قائم ہوکر توحید پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرے، بدعتی اپنی ایجاد کردہ بدعات کو ترک کرکے اپنے نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنا اسوہ بنائے، ظالم اپنے باغیانہ روش سے باز آئے، زانی زنا ترک کرے، چغل خور اوربندوں کے آپسی تعلقات میں رخنہ ڈالنے والا اپنا رویہ تبدیل کرے، غرضیکہ جو شخص جس برائی میں ملوث ہے اس سے توبہ کرے ،اس برائی کو بالکلیہ ترک کرے ،مستقبل میں کبہی نہ کرنے کا پختہ عہد کرے، اس طریقے سے جب بندہ باطنی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرلے گا تو اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالی سے اس کا رشتہ مضبوط ہوجائے گا اور اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے بہت سارے امراض کو ٹال دے گا 
اللہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو ان امراض سے محفوظ رکھے آمین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

الوداعی کلمات جامعہ اسلامیہ سنابل jamia Islamia Sanabil

محبتوں کا دریا سموئے ہوئے جدا ہورہے ہیں گلشن علم وفن سے ملاقات کے دن ختم ہوئے جدائی کے دن قریب ہوئے آج وہ  لمحہ آچکا ہے  ہے جس میں خوشی کا پہلو کم اور غمی کا پہلو زیادہ ہے جامعہ کے تئیں دل میں محبت کے جو جذبات موجزن ہیں ان کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں اور نہ میرے پاس وہ پیرایہ بیان ہے جس کے ذریعہ میں اپنے غم جدائی کی تفصیل کرسکوں اور مجھ جیسے ناتواں کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جملوں اور الفاظ کے ذریعہ ان جذبہائے محبت کی ترجمانی کرسکے جو دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں کیونکہ اب اس دیار محبوب کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا ہے جس کی گود میں ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کے بیشتر ایام گزارے ہیں اور مشکل ترین وصبر آزما حالات میں بہی ہم نے اسے اپنا جائے پناہ بنایا ہےاے سنابل تیری فضا کتنی راحت بخش تھی جس سے اب ہم اشک چھلکاتے وداع ہو رہے ہیں یقیناً اس وقت کو ہم کیسے بھلا سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین سنابل میں قدم رکھا تہا اور اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو دل میں بسائے ہوئے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا اور یہاں کے چشم صافی سے جام کشید کرنے کے لئے پختہ عزائم لے کر

جنات کی حقیقت

  جنات کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں جنات اپنی فطرت وطبیعت کے لحاظ سے ایک غیر مرئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی عبادت کے لئے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف روپ دھارنے کا ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت وقوت سے سرفراز کیا ہے.ذیل کے سطور میں جنات کے تعلق سے ایک اجمالی خامہ فرسائی کی گئی ہے. جنات کی تعریف جنات کی تعریف کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :هم أجسام عاقلة خفية تغلب عليهم النارية والهوائية. [فتح القدیر 303/5] "جن وہ صاحب عقل اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے ان پر ہوائی اور آتشی مادہ غالب ہوتا ہے ". جنات کے ثبوت میں قرآنی دلائل جنات ایک آتشی مخلوق ہیں جس کا ثبوت قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے اللہ رب العالمین نے ان کے نام سے قرآن کی ایک سورت بنام "سورۃ الجن" نازل فرمائی ہم یہاں قرآن مجید سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں جو آتشی مخلوق جنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ. [سورۃ الاحقاف :29] "اور یاد کر

صدارتی کلمات

  *صدارتی کلمات* !الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد قابل قدر علماء کرام ،طلبہ عظام وجملہ مشارکین وگروپ   منتظمین *السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركته*  آج بتاریخ ١۰/ذی الحجہ ١۴۴١ھ مطابق 11/اگست 2019ءبروز اتوار بعد صلاۃ عشاء ایک علمی وادبی گروپ بنام "فکر ونظر "میں ایک علمی محاضرے کا انعقاد عمل میں آیا جس کا عنوان تھا "پیغام عید الاضحی _ احکام ومسائل" میں نے اپنی گفتگو کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے  *پہلا حصہ عنوان سے متعلق*   چونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے دو عید مشروع رکھا ہے عید الفطر اور عید الاضحی مزید برآں عید الاضحی کے ساتھ ایک اور عظیم الشان عبادت یعنی قربانی کو جوڑ دیا ہے جو کہ حقیقتاً شعائر اسلام میں سے ایک شعار اور عبادت ہے لہذا اس عبادت کو صحیح انداز میں ادا کرنے کے لئے ایک مسلمان پر اس سے متعلق اس قدر جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ اس عظیم الشان عبادت کی ادائیگی سنت کے مطابق انجام دے سکیں یہی وجہ ہے کہ اس طریقے کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ حسب

Qutub Minar قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ

قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ  (اردو خاندہ کے لئے نظر التفات)   از قلم :معاذ دانش   قوت الاسلام مسجد قوت الاسلام مسجد (دہلی)کے صحن کا ایک منظر  سلطان محمد شہاب الدین کے مارے جانے کے بعد سلطان قطب الدین ایبک نے جون ١۲۰٦ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا، یہ عالموں کا قدر دان اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے موسوم ہندوستان کا وہ پہلا ترکی النسل مسلم بادشاہ ہے جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو "دہلی سلطنت" کے نام سے مشہور ہوئی، اورنومبر ١۲١۰ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے"ایبک روڈ"میں دفن ہوا.اسی نے ١۹۹۰ء میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی البتہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں اس مسجد کا صحن مستطیل نما تھا ، اس مسجد کی لمبائی ١٤١ اور چوڑائی ١۰٥ فٹ تھی، صحن کے چاروں طرف دالان بنائے گئے تہے، مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے آج بہی موجود ہیں ،ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی،چونکہ التمشؔ کے دور میں سنگ تراشو

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل از قلم :معاذ دانش حمید اللہ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے عربی زبان میں اسے "الأضحية" کہتے ہیں۔  الاضحيۃ (قربانی)کی تعریف   ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام (اونٹ ،گائے ،بکری ،بھیڑ) میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی کی مشروعیت   اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36] "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے"۔      اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ[صحیح بخاری :5545] "کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا"۔  اور متعدد اہل علم نے قربانی کی مشروعت پر اجماع نقل کیا ہے [المغني لابن قدامة المقدسي :8/617] قربانی کا

ادیان ومذاہب

ادیان ومذاہب از قلم :معاذ دانش حمید اللہ  (یہ مضمون ادیان ومذاہب کے تعلق سے ایک عربی مذکرے کا ترجمہ ہے ) الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين امابعد!  بلا شبہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو ایسے وقت میں بہیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند ہوچکا تہا اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی معاملات میں فیصلہ کردیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ  اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ  الَّذِیۡ  لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ  اِلَی اللّٰہِ  تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ. [سورۃ الشوری:52_53] " یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔  خبردار رہو ،  سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں".  پہر لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے.  (1)مومن(2)کافر رہے مومن تو ان کی ایک ہی جماعت ہے جو سیدھے راستے پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے نور سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ان کا راستہ روشن

سامنے رکھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

سامنے رکہا تہا میرےاور وہ میرا نہ تہا  از قلم :معاذ دانش حمید اللہ   ۲۸_۲۹ جولائی سنہ ۲۰١۸ بروز ہفتہ واتوار مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام اٹھارہواں کل ہند مسابقہ حفظ وتجوید وتفسیر قرآن کریم صبح ١۰:۰۰ بجے اہل حدیث کمپلیکس میں شروع ہوا چھ زمروں پر مشتمل اس پروگرام میں قیام وطعام کا معقول انتظام کیا گیا تہا ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ کے وفود پہونچ چکے تہے لوگوں میں باہمی مسابقت کا عظیم جزبہ دکھائی دے رہا تہا سابقہ روایات کے مطابق جامعہ اسلامیہ سنابل سے بہی طلبہ کا ایک جم غفیر کمپلیکس کے احاطے میں قدم رکھ چکا تہا ہر طرف جوش تہا امنگ تہا خوشیوں کی لہر تہی یہ ساری چیزیں اپنے آپ میں ایک ایک نادر ونایاب عکس پیش کر رہی تہیں امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی ودیگر اراکین مجلس نیز باہر سے تشریف لائے بعض اہل علم کے تاثراتی کلمات کے بعد مسابقے کا باقاعدہ آغاز ہوا لیکن ابہی چند ساعت نہ گزرے ہوں گے کہ ایک اعلان آیا جس میں مقامی افراد کو مسابقے کے بعد بلا ظہرانہ گھر تشریف لے جانے کی تلقین کی گئی تہی اس اعلان نے مسابقے کے دوران ہی ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا مشارکین مسابقہ کی گو
زندگی کی پہلی سیلری  یوں تو ہمارے دوستوں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں  نوع بنوع علمی وفنی مہارات پائی جاتی ہیں انہیں میں سے ایک ہمارے بہت قریی اور عظیم الشان صلاحیتوں اور مہارتوں کے مالک عبد الرزاق العماد کی مایہ ناز شخصیت ہے جن کا حلیہ مبارک کچھ یوں ہے میانہ قد ،گول چہرہ ،متناسب جسم ،ٹھوڑی پر ابھرتے ہوئے داڑھی کے چند بال ،سر پر گول ٹوپی ،سفید فٹنگ کرتا پائجامہ میں ملبوس سامنے کی جیب میں لگا ایک عمدہ قلم اور بسا اوقات کان میں خوشبو سے معطر روئی کا فوا لگائے ہوئے تیز قدموں سے چلنا آپ کی صفت تہی تعلیمی ایام میں آپ کا معمول تہا کہ جب بہی کلاس میں داخل ہوتے مسکرا کر سلام کرتے اور سامنے کی سیٹ پر جلوہ افروز ہوجاتے لوگوں سے کافی میل محبت کے ساتھ رہتے لوگوں سے ہنسی مذاق کا ایک خاص اسلوب تہا جو آپ کو دوسروں سے ممتاز رکھتا تہا کلاس میں عبد العليم بہائی آپ کے بغل میں بیٹھا کرتے تہے وہ بہی خاصے  معصوم لگتے تہے شاید یہ انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہو چونکہ ہماری کلاس کی خوبی یہ تہی کہ جب جس نے چاہا ہاتھا پائی کرلیا اور لمحوں میں دوستی کا ہاتھ بہی بڑھا دیا اور اس سے بہی عجیب خوبی یہ تہی کہ سال ک

ماہ شعبان،احکام و مسائل

ماہ شعبان ،احکام و مسائل ا ز قلم:معاذدانش حمیداللہ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ شعبان کی وجہ تسمیہ شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔ اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث می