زندگی کی پہلی سیلری
یوں تو ہمارے دوستوں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں نوع بنوع علمی وفنی مہارات پائی جاتی ہیں انہیں میں سے ایک ہمارے بہت قریی اور عظیم الشان صلاحیتوں اور مہارتوں کے مالک عبد الرزاق العماد کی مایہ ناز شخصیت ہے جن کا حلیہ مبارک کچھ یوں ہے میانہ قد ،گول چہرہ ،متناسب جسم ،ٹھوڑی پر ابھرتے ہوئے داڑھی کے چند بال ،سر پر گول ٹوپی ،سفید فٹنگ کرتا پائجامہ میں ملبوس سامنے کی جیب میں لگا ایک عمدہ قلم اور بسا اوقات کان میں خوشبو سے معطر روئی کا فوا لگائے ہوئے تیز قدموں سے چلنا آپ کی صفت تہی تعلیمی ایام میں آپ کا معمول تہا کہ جب بہی کلاس میں داخل ہوتے مسکرا کر سلام کرتے اور سامنے کی سیٹ پر جلوہ افروز ہوجاتے لوگوں سے کافی میل محبت کے ساتھ رہتے لوگوں سے ہنسی مذاق کا ایک خاص اسلوب تہا جو آپ کو دوسروں سے ممتاز رکھتا تہا کلاس میں عبد العليم بہائی آپ کے بغل میں بیٹھا کرتے تہے وہ بہی خاصے معصوم لگتے تہے شاید یہ انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہو چونکہ ہماری کلاس کی خوبی یہ تہی کہ جب جس نے چاہا ہاتھا پائی کرلیا اور لمحوں میں دوستی کا ہاتھ بہی بڑھا دیا اور اس سے بہی عجیب خوبی یہ تہی کہ سال کی طویل مدت میں کبہی کسی مسئلے پر ہم نے اتفاق نہیں کیا جمہوریت میں رائے دہی کی پوری آزادی تو کلاس ہی میں دیکھنے کو ملی جب جس نے چاہا "ہاں" کہا اور جب جس نے چاہا دلائل سے رد کرڈالا ہمیں یاد پڑتا ہے کہ عماد صاحب نے بہی ایک دفعہ پارلیمنٹ میں بات رکھی تہی اور ہم نے پرزور مخالفت کرکے اس بات کی تردید کردی تہی بھلا وہ کلاس کیسے پر امن رہ سکتی تہی جس میں عباد الرحمن جیسے بڑے بڑے عہدیداران صغیر اور کاشف جیسے دانشوران خبیب جیسے positive سوچ والے عمران ،توفیق اور فاروق جیسے باہمت افراد یوسف جیسے گرجدار خطیب عبد الباسط جیسے تاریخ دان فیصل جیسے فوڈ مینیجر نوشاد جیسا ٹیلنٹر وجیہ جیسا ریسرچر ثناء الرحمن جیسا ریڈر اور ارشد ،بابر جیسے شعراء اور عامر خان جیسے ایکٹر ہوں گویا ہر ایک ،دوسرے سے مختلف المزاج ہے ان میں کسی بات پر اتفاق حسن اتفاق کہلائے گا لیکن یہ اسماء تو فقط قلم کی مصیبت ہیں ورنہ تو ہر ایک اپنے آپ میں ایک کتاب ہے عماد کی شخصیت بہی انہیں سنابل (بالیوں) کے دانوں میں سے دانہ ہے جو سنابل کے باغ میں ایک کونپل کی طرح جمنا کے کنارے اتفاقی طور پر اگ گیا تھا لیکن اسی باغ میں پلا بڑھا یہاں تک کہ تن آور ہوگیا اور پھر اکیلا ایک دانے کی حیثیت سے سنابل کے اس باغ سے نکل کر مدھیہ پردیش کے ایک ویرانے کھیت میں اپنے ایک دانے سے سینکڑوں دانے معرض وجود میں لانے اور "كمثل حبة انبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة " کا مصداق بننے کے لئے ایک مہینہ قبل نکل پڑا تہا آج کا دن زندگی میں ملنے والی پہلی سیلری کا دن ہے جو اس کے لئے کافی مسرت کا دن ہے لیکن نادان راقم کی بہی عجیب خواہش ہے وہ عماد کی شخصیت سے قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس پہلی بار ملنے والی سیلری کے کچھ دانوں کو ایسا دانے بنانے کی سعی محمود کریں گے جو سینکڑوں دانے مل کر ایسے گھنے باغات کی صورت اختیار کرجائیں اور قیامت کے روز سورج کی دھکتی گرمی کے بالمقابل ان کے لئے سائبان بن جائیں مَّثَلُ ٱلَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمۡوَ ٰلَهُمۡ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنۢبُلَةࣲ مِّا۟ئَةُ حَبَّةࣲۗ وَٱللَّهُ یُضَـٰعِفُ لِمَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ وَ ٰسِعٌ عَلِیم.
تبصرے
آپ قلوب قوم کی آواز بن سکتے ہیں