نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
ح حصول علم کے لئے دس قیمتی گوہر 


الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسول الله أما بعد! 

یہ چند کلمات ہیں جن کا تعلق ان اہم ترین بنیادوں سے ہے جن کی ضرورت ہر اس شخص کو ہے جو  علم کے راستے پر چلتا ہے. 
میں اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کو اسی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ جس نے طلب علم اور اس کے حصول کا ارادہ کیا اس کے لئے ان دس بنیادوں کا جاننا نہایت ضروری ہے. 

پہلا:اللہ سے مدد طلب کرنا 

انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ کی مدد کے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس لئے جب وہ اپنا معاملہ اپنے نفس کے سپرد کردیتا ہے تو ہلاک وبرباد ہوجاتا ہے اور جب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے اور علم کی طلب میں اسی ذات سے مدد کا خوگر ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کی مدد کرتا ہے.
 اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس میں اسی بات پر لوگوں کو ابھارا ہے. فرمایا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين .
(ُسورۃ الفاتحة :٥) 
"ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں".
اور فرمایا : وَ مَنۡ  یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ  فَہُوَ حَسۡبُہٗ
"اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا".
یعنی اللہ اس کا کفیل ہوجائے گا،
اور فرمایا:وَ عَلَی اللّٰہِ  فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ  مُّؤۡمِنِیۡن(سورة المائدة :٢٣) 
" اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا(سنن ترمذي :2344وصححه الالباني) 
”اگر تم لوگ اللہ پر توکل ( بھروسہ )  کرو جیسا کہ اس پر توکل  ( بھروسہ )  کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں".
اور سب سے عظیم رزق علم ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام معاملات میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے اور اسی سے مدد طلب کرتے منزل سے باہر نکلنے کی دعا جو آپ سے صحیح سند سے ثابت ہے اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے آپ فرماتے ہیں" بسم الله توكلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله ".

دوسرا:اچھی نیت 

انسان کو چاہئے کہ علم کی طلب میں اپنی نیت خالص رکھے اللہ کے لئے مخلص ہو دکھاوا اور شہرت کا ارادہ نہ کرے اور جو شخص اللہ کے لئے اپنی نیت خالص رکھے گا اللہ تعالی اسے توفیق سے نوازے گا اور اس پر اسے ثواب عطا کرے گا کیونکہ علم عبادت ہے بلکہ عبادت سے بہی زیادہ عظیم ہے بندے کو کسی عمل پر ثواب نہیں دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ عمل اللہ کے لئے خالص اور متابعت رسول کے موافق نہ ہو اللہ تعالی فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (سورة النحل:۱۲٨)
"یقین مانو کہ اللہ تعالٰی متقیوں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے".
اور سب سے عظیم تقوی اللہ کے لئے نیت کو خالص کرنا ہے،
اور جو شخص شہرت کے لئے علم حاصل کرے گا وہ آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا جیسا کہ حدیث میں ان تین بد نصیبوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر آتش دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جو اپنے آپ کو عالم کہلائے جانے کے لئے علم حاصل کیا ہوگا اس سے کہا جائے گا کہ تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق دنیا میں عالم کہا جا چکا یہاں تمہارا کوئی حصہ نہیں اب آتش جہنم کا مزا چکھو .

تیسرا :اللہ سے رو رو کر دعائیں کرنا اور اس سے توفیق اور درستی مانگنا 

اللہ رب العالمین سے دعا کرنا علم میں اضافے کا سبب ہے کیونکہ بندہ فقیر ہے اور اپنے رب کا سخت محتاج ہے اللہ جل شانہ نے اپنے بندے کو سوال کرنے اور روروکر ،گڑگڑاکر، آہ وزاری کرنے اور دعائیں کرنے پر ابھارا ہے فرمایا :وَ قَالَ رَبُّکُمُ  ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ  الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ(سورة الغافر :٦٠) 
"اور تمہارے رب کا فرمان(سرزد ہو چکا )ہےکہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا  یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم   میں پہنچ جائیں گے".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اور اللہ نے اپنے نبی کو علم میں زیادتی کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا :۫ وَ  قُلۡ  رَّبِّ  زِدۡنِیۡ  عِلۡمًا. (سورة طه :١١٤) 
"ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار میرا علم بڑھا".
اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے فرمایا:رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ(سورة الشعراء :٨٣) 
"اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے".
یہاں"حکم"سے مراد علم ہے.
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إذا اجتهد الحاكم... ،(الحديث).
" جب عالم اجتہاد کرے...،" 
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے لئے قوت حافظہ کی دعا فرمائی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لئے علم کی دعا فرمائی،فرمایا:اللَّهمَّ فقِّهْهُ في الدِّينِ وعلِّمْه التأويلَ.
"اے اللہ تو ابن عباس کو دین میں فقاہت نصیب فرما اور انہیں قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما".
پس اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے حافظے کا عالم یہ ہوگیا کہ وہ جو کچھ سنتے یاد کرلیتے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الأمة اور ترجمان القرآن ہوگئے. 
بعد میں اسی روش پر چلتے ہوئے اہل علم برابر اللہ سے گریہ وزاری کرتے رہے اور اللہ سے سوال کرتے رہے،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مساجد کی طرف جاتے سجدہ کرتے اور اللہ رب العالمین سے دعا مانگتے ہوئے کہتے" يا معلم إبراهيم علمني ويا مفهم سليمان فهمني.
"کہ اے ابراہیم کو سکھلانے والے مجھے سکھلا دے اے سلیمان کو فہم عطا کرنے والے مجھے فہم عطا کر".
تو اللہ رب العالمین نے ان کی دعا قبول فرمائی یہاں تک کہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ آپ کے تعلق سے فرماتے ہیں: قد جمع الله له العلم حتى كأنه يأخذ ما يشاء ويترك ما يشاء .
"کہ اللہ نے ان کے لئے علم کو جمع کردیا تہا یہاں کہ ایسا محسوس ہوتا کہ سارا علم ان کے سامنے ہو جسے چاہیں لے لیں جسے چاہیں ترک کردیں". 

چوتھا :دل کی درستی 

دل علم کا برتن ہے اگر برتن درست ہے تو جو چیزیں اس میں رکہی جائیں گی محفوظ ہوں گی اور اگر برتن درست نہیں ہے تو جو اس میں رکہی جائیں گی ضائع وبرباد ہوجائیں گی،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کو ہر چیز کی بنیاد اور اساس قرار دیا ہے فرمایا:أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ، (صحيح البخاري :52).
"سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے".
اور دل کی درستی درج ذیل چیزوں سے حاصل ہوتی ہے. 
اللہ تعالی کی معرفت
اس کے اسماء وصفات اور افعال کی معرفت اس کی مخلوقات اور نشانیوں میں غور وفکر کرنا
قرآن میں تدبر کرنا
کثرت سے سجدہ کرنا
تہجد کا اہتمام کرنا
اور دل کے امراض کی دو قسمیں ہیں
(١)شہوات (۲)شبہات
شہوات ؛جیسے دنیا اور اس کی خواہشات سے محبت کرنا اس میں مشغول رہنا حرام صورتوں سے محبت کرنا حرام گانے بانسری اور سنگیت سننا اسی طرح حرام چیزوں کا نظارہ کرنا. 
شبہات ؛جیسے فاسد اعتقادات بدعی افعال اور ایسے بدعتی مکتب فکر کی طرف نسبت کرنا جو سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہو .
اور دلوں کے وہ امراض جو حصول علم میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں وہ درج ذیل ہیں.
حسد کرنا 
دھوکا دینا 
تکبر کرنا 
اور وہ عادات جو دلوں میں فساد پیدا کرتی ہیں وہ وہ درج ذیل ہیں.
زیادہ کھانا 
زیادہ سونا 
فضول کلام کرنا 
پس ان امراض ومفسدات سے بچنا دل کی درستی کا باعث ہے.

پانچواں:ذہانت

ذہانت کچھ فطری اور کچھ کسبی ہوتی ہیں پس اگر انسان فطری طور پر ذہین ہے تو کسبی ذہانت کے ذریعہ اس کو مزید قوی بنائے اور اگر فطری طور پر ذہین نہیں ہے تو نفس کو اس کا عادی بنائے یہاں تک کہ اسے حاصل کرلے. 
اور ذہانت ان قوی اسباب میں سے ایک ہے جو طلب علم فہم اور حفظ میں معاون ہوتا ہے.

چھٹا:علم کی حرص 

طلب علم کے لئے حرص پیدا کرنا علم کی حصولیابی اور اللہ جل شانہ کی مدد کا باعث ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (۱۲٨)
" یقین مانو کہ اللہ تعالٰی پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے "۔  
انسان جب کسی شیئ کی اہمیت کا اندازہ کرلیتا ہے تو اس کے دل میں اس شیئ کو حاصل کرنے کی تڑپ اور حرص پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جن اشیاء کو حاصل کرنے کی تڑپ شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے میں سخت محنت اور جد وجہد کرتا ہے ان میں سب سے عظیم شیئ علم ہے اس لئے انسان پر واجب ہے کہ علم کو حفظ کرنے اس کوسمجھنے اور اہل علم کی مجالس میں زیادہ سے زیادہ بیٹھنے کی حرص پیدا کرے وقت کی حفاظت کا حریص اور وقت ضائع کرنے میں بخیل بنے. 

ساتواں :حصول علم کے لئے سخت محنت کرنا اور اس پر مداومت برتنا 

طالب علم سستی اور عاجزی سے دوری اختیار کرے نفس اور شیطان کی پیروی سے بچنے کے لئے پوری طاقت صرف کردے کیونکہ نفس اور شیطان طلب علم سے روک دیتے ہیں .
حصول علم کے لئے محنت اور جدوجہد کرنے کے چند اسباب درج ذیل ہیں. 
علماء کی سوانح عمری کا مطالعہ کرے. 
حصول علم میں ان کے علمی اسفار کامطالعہ کرے.
علمی اسفار میں پیش آنے والے مصائب ومشکلات کے دوران ان کے صبروتحمل اور قوت برداشت کا مطالعہ کرے.

آٹھواں : بلغہ 

اور وہ یہ کہ طالب علم اپنی پوری کوشش لگا دے یہاں تک کہ وہ اپنی مراد تک پہونچنے میں کامیابی حاصل کرلے (....)

نوواں :عالم دین کی صحبت 

علم ،علماء کی زبان سے حاصل کی جاتی ہے طالب علم ، علم کے حصول میں صحیح جوہر پر اعتماد کرے علماء کی مجالست اختیار کرے انہیں سے علم حاصل کرے اس کا طلب، صحیح قواعد کی روشنی میں ہو قرآن وسنت کے نصوص کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرے اس میں غلطی نہ کرے اس کے صحیح اور درست مراد کو سمجھے، عالم دین سے ادب و اخلاق اور ورع حاصل کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنا شیخ کتاب کو نہ بنائے کیونکہ جب کتابوں کو اپنا شیخ بنالے گا تو صحیح چیزیں کم اور غلطیاں زیادہ بٹور ےگا امت میں جو بہی شخص علم سے متصف ہوا وہ کسی عالم ہی کے ہاتھ سے تربیت پانے والا اور علم حاصل کرنے والا رہا ہے  یہی سلسلہ ہمارے اس دور تک جاری رہا ہے. 

دسواں :لمبی مدت 

طالب علم کبہی نہ سوچے کہ وہ ایک دن، دو دن یا سال، دوسال میں تعلیم مکمل کرلےگا بل کہ اسے سالوں سال تک صبر کرنے کی ضرورت ہے.
قاضی عیاض رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ طالب علم کب تک علم حاصل کرے؟
 تو آپ نے فرمایا :یہاں تک کہ وہ وفات پاجائے اور اس کے دوات کی روشنائی قبر پر انڈیل دی جائے. 
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ میں کتاب الحیض کے درس میں نو سال تک بیٹھتا رہا یہاں تک کہ اسے سمجھ لیا. 
اور ذہین طلبہ علماء کی مجلسوں میں دس دس، بیس بیس سال برابر بیٹھتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو مجلس میں بیٹھتے بیٹھتے وفات پاجاتے ہیں.
یہی وہ جواہرات ہیں جن سے آگاہی حاصل کرنا طالب علم کے لئے ضروری ہے .
میں اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا کرے آمین.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم واقتفى أثرهم بإحسان إلى يوم الدين.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

الوداعی کلمات جامعہ اسلامیہ سنابل jamia Islamia Sanabil

محبتوں کا دریا سموئے ہوئے جدا ہورہے ہیں گلشن علم وفن سے ملاقات کے دن ختم ہوئے جدائی کے دن قریب ہوئے آج وہ  لمحہ آچکا ہے  ہے جس میں خوشی کا پہلو کم اور غمی کا پہلو زیادہ ہے جامعہ کے تئیں دل میں محبت کے جو جذبات موجزن ہیں ان کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رہے ہیں اور نہ میرے پاس وہ پیرایہ بیان ہے جس کے ذریعہ میں اپنے غم جدائی کی تفصیل کرسکوں اور مجھ جیسے ناتواں کے لئے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے جملوں اور الفاظ کے ذریعہ ان جذبہائے محبت کی ترجمانی کرسکے جو دلوں میں پیوست ہوچکے ہیں کیونکہ اب اس دیار محبوب کو الوداع کہنے کا وقت قریب آچکا ہے جس کی گود میں ہم نے اپنی تعلیمی زندگی کے بیشتر ایام گزارے ہیں اور مشکل ترین وصبر آزما حالات میں بہی ہم نے اسے اپنا جائے پناہ بنایا ہےاے سنابل تیری فضا کتنی راحت بخش تھی جس سے اب ہم اشک چھلکاتے وداع ہو رہے ہیں یقیناً اس وقت کو ہم کیسے بھلا سکتے جب ہم نے پہلی بار سرزمین سنابل میں قدم رکھا تہا اور اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کو دل میں بسائے ہوئے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا اور یہاں کے چشم صافی سے جام کشید کرنے کے لئے پختہ عزائم لے کر

جنات کی حقیقت

  جنات کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں جنات اپنی فطرت وطبیعت کے لحاظ سے ایک غیر مرئی مخلوق ہیں جنہیں اللہ رب العالمین نے اپنی عبادت کے لئے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے اور انہیں مختلف روپ دھارنے کا ملکہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت وقوت سے سرفراز کیا ہے.ذیل کے سطور میں جنات کے تعلق سے ایک اجمالی خامہ فرسائی کی گئی ہے. جنات کی تعریف جنات کی تعریف کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :هم أجسام عاقلة خفية تغلب عليهم النارية والهوائية. [فتح القدیر 303/5] "جن وہ صاحب عقل اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے ان پر ہوائی اور آتشی مادہ غالب ہوتا ہے ". جنات کے ثبوت میں قرآنی دلائل جنات ایک آتشی مخلوق ہیں جس کا ثبوت قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہے اللہ رب العالمین نے ان کے نام سے قرآن کی ایک سورت بنام "سورۃ الجن" نازل فرمائی ہم یہاں قرآن مجید سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں جو آتشی مخلوق جنات کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ. [سورۃ الاحقاف :29] "اور یاد کر

صدارتی کلمات

  *صدارتی کلمات* !الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد قابل قدر علماء کرام ،طلبہ عظام وجملہ مشارکین وگروپ   منتظمین *السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركته*  آج بتاریخ ١۰/ذی الحجہ ١۴۴١ھ مطابق 11/اگست 2019ءبروز اتوار بعد صلاۃ عشاء ایک علمی وادبی گروپ بنام "فکر ونظر "میں ایک علمی محاضرے کا انعقاد عمل میں آیا جس کا عنوان تھا "پیغام عید الاضحی _ احکام ومسائل" میں نے اپنی گفتگو کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے  *پہلا حصہ عنوان سے متعلق*   چونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے دو عید مشروع رکھا ہے عید الفطر اور عید الاضحی مزید برآں عید الاضحی کے ساتھ ایک اور عظیم الشان عبادت یعنی قربانی کو جوڑ دیا ہے جو کہ حقیقتاً شعائر اسلام میں سے ایک شعار اور عبادت ہے لہذا اس عبادت کو صحیح انداز میں ادا کرنے کے لئے ایک مسلمان پر اس سے متعلق اس قدر جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے جس سے وہ اس عظیم الشان عبادت کی ادائیگی سنت کے مطابق انجام دے سکیں یہی وجہ ہے کہ اس طریقے کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا بلکہ حسب

Qutub Minar قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ

قدیم سیاحت گاہ قطب مینار کا ایک حسین منظر نامہ  (اردو خاندہ کے لئے نظر التفات)   از قلم :معاذ دانش   قوت الاسلام مسجد قوت الاسلام مسجد (دہلی)کے صحن کا ایک منظر  سلطان محمد شہاب الدین کے مارے جانے کے بعد سلطان قطب الدین ایبک نے جون ١۲۰٦ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کیا، یہ عالموں کا قدر دان اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں "لکھ بخش" کے نام سے موسوم ہندوستان کا وہ پہلا ترکی النسل مسلم بادشاہ ہے جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جو "دہلی سلطنت" کے نام سے مشہور ہوئی، اورنومبر ١۲١۰ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے"ایبک روڈ"میں دفن ہوا.اسی نے ١۹۹۰ء میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی البتہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں اس مسجد کا صحن مستطیل نما تھا ، اس مسجد کی لمبائی ١٤١ اور چوڑائی ١۰٥ فٹ تھی، صحن کے چاروں طرف دالان بنائے گئے تہے، مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے آج بہی موجود ہیں ،ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی،چونکہ التمشؔ کے دور میں سنگ تراشو

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل از قلم :معاذ دانش حمید اللہ قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے عربی زبان میں اسے "الأضحية" کہتے ہیں۔  الاضحيۃ (قربانی)کی تعریف   ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام (اونٹ ،گائے ،بکری ،بھیڑ) میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے۔ قربانی کی مشروعیت   اللہ نے قربانی کو اپنے اس فرمان کے ساتھ مشروع کیا ہے "وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ  شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ [الحج :36] "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارے لئے خیر ہے"۔      اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ تَمَّ نُسُكُهُ ، وَأَصَابَ سُنَّةَ الْمُسْلِمِينَ[صحیح بخاری :5545] "کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا"۔  اور متعدد اہل علم نے قربانی کی مشروعت پر اجماع نقل کیا ہے [المغني لابن قدامة المقدسي :8/617] قربانی کا

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر (عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی) از قلم: معاذ دانش حمید اللہ ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے  کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ کرونا وائرس کے بارے میں

ادیان ومذاہب

ادیان ومذاہب از قلم :معاذ دانش حمید اللہ  (یہ مضمون ادیان ومذاہب کے تعلق سے ایک عربی مذکرے کا ترجمہ ہے ) الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين امابعد!  بلا شبہ اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو ایسے وقت میں بہیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند ہوچکا تہا اور ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافی معاملات میں فیصلہ کردیں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ  اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ صِرَاطِ اللّٰہِ  الَّذِیۡ  لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ  اِلَی اللّٰہِ  تَصِیۡرُ الۡاُمُوۡرُ. [سورۃ الشوری:52_53] " یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے ۔  خبردار رہو ،  سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں".  پہر لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے.  (1)مومن(2)کافر رہے مومن تو ان کی ایک ہی جماعت ہے جو سیدھے راستے پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے نور سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ان کا راستہ روشن

سامنے رکھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

سامنے رکہا تہا میرےاور وہ میرا نہ تہا  از قلم :معاذ دانش حمید اللہ   ۲۸_۲۹ جولائی سنہ ۲۰١۸ بروز ہفتہ واتوار مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام اٹھارہواں کل ہند مسابقہ حفظ وتجوید وتفسیر قرآن کریم صبح ١۰:۰۰ بجے اہل حدیث کمپلیکس میں شروع ہوا چھ زمروں پر مشتمل اس پروگرام میں قیام وطعام کا معقول انتظام کیا گیا تہا ملک کے مختلف علاقوں سے طلبہ کے وفود پہونچ چکے تہے لوگوں میں باہمی مسابقت کا عظیم جزبہ دکھائی دے رہا تہا سابقہ روایات کے مطابق جامعہ اسلامیہ سنابل سے بہی طلبہ کا ایک جم غفیر کمپلیکس کے احاطے میں قدم رکھ چکا تہا ہر طرف جوش تہا امنگ تہا خوشیوں کی لہر تہی یہ ساری چیزیں اپنے آپ میں ایک ایک نادر ونایاب عکس پیش کر رہی تہیں امیر محترم مولانا اصغر علی امام مہدی ودیگر اراکین مجلس نیز باہر سے تشریف لائے بعض اہل علم کے تاثراتی کلمات کے بعد مسابقے کا باقاعدہ آغاز ہوا لیکن ابہی چند ساعت نہ گزرے ہوں گے کہ ایک اعلان آیا جس میں مقامی افراد کو مسابقے کے بعد بلا ظہرانہ گھر تشریف لے جانے کی تلقین کی گئی تہی اس اعلان نے مسابقے کے دوران ہی ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا مشارکین مسابقہ کی گو
زندگی کی پہلی سیلری  یوں تو ہمارے دوستوں کی فہرست بہت طویل ہے ان میں  نوع بنوع علمی وفنی مہارات پائی جاتی ہیں انہیں میں سے ایک ہمارے بہت قریی اور عظیم الشان صلاحیتوں اور مہارتوں کے مالک عبد الرزاق العماد کی مایہ ناز شخصیت ہے جن کا حلیہ مبارک کچھ یوں ہے میانہ قد ،گول چہرہ ،متناسب جسم ،ٹھوڑی پر ابھرتے ہوئے داڑھی کے چند بال ،سر پر گول ٹوپی ،سفید فٹنگ کرتا پائجامہ میں ملبوس سامنے کی جیب میں لگا ایک عمدہ قلم اور بسا اوقات کان میں خوشبو سے معطر روئی کا فوا لگائے ہوئے تیز قدموں سے چلنا آپ کی صفت تہی تعلیمی ایام میں آپ کا معمول تہا کہ جب بہی کلاس میں داخل ہوتے مسکرا کر سلام کرتے اور سامنے کی سیٹ پر جلوہ افروز ہوجاتے لوگوں سے کافی میل محبت کے ساتھ رہتے لوگوں سے ہنسی مذاق کا ایک خاص اسلوب تہا جو آپ کو دوسروں سے ممتاز رکھتا تہا کلاس میں عبد العليم بہائی آپ کے بغل میں بیٹھا کرتے تہے وہ بہی خاصے  معصوم لگتے تہے شاید یہ انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہو چونکہ ہماری کلاس کی خوبی یہ تہی کہ جب جس نے چاہا ہاتھا پائی کرلیا اور لمحوں میں دوستی کا ہاتھ بہی بڑھا دیا اور اس سے بہی عجیب خوبی یہ تہی کہ سال ک

ماہ شعبان،احکام و مسائل

ماہ شعبان ،احکام و مسائل ا ز قلم:معاذدانش حمیداللہ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ ماہ شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے ذیل کے سطور میں ماہ شعبان کے تعلق سے چند باتیں ذکر کی جارہی ہیں ۔ شعبان کی وجہ تسمیہ شعبان کا معنی ، بکھرنا ،پھیلنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد أن يخرج شهر رجب الحرام» فتح الباري (4/213)۔ اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔ شعبان میں روزہ رکھنے کی حکمت ماہ شعبان میں روزہ رکھنے کی دو حکمتیں ہیں جن کا تذکرہ اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث می